Type Here to Get Search Results !

انصاف ( افسانہ )



از  :  رخسانہ نازنین،  بیدر ( کرناٹک )


" نہ جانے کیا جادو کیا تھا کہ میرا بھولا بھالا بیٹا فدا ہوگیا ، کیسی معصوم صورت بنائے رکھتی ہے... جیسے میں ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہوں اس پر.... بد سلیقہ ، نکمی لڑکی. ماں نے کچھ سکھایا ہی نہیں!  بھیج دیا سسرال... ! " ناظمہ بیگم ہمیشہ کی طرح معمولی سی بات پر ملیحہ کو بے نقط سنا رہی تھیں. پہلے دن سے انہوں نے اس سے بیر باندھ لیا تھا. کہ اس لڑکی کے لئے پہلی بار انکے سعادت مند بیٹے نے انکے فیصلے کو رد کیا تھا. وہ اپنی بھتیجی صبا کو بہو بنانے کا فیصلہ کر چکی تھیں لیکن عدنان ملیحہ کا اسیر ہوچکا تھا اور اسی سے شادی کرنا چاہتا تھا.پہلی بار اس نے کوئی تمنا کی تھی. ماں کی بیوگی کے بعد احاس ذمے داری سے اس نے اپنے فرائض کی تکمیل کی تھی. خوش نصیبی  سےپڑھائی سے فارغ ہوتے ہی بہترین ملازمت بھی مل گئی. سعدیہ کا بیاہ والد کی حیات میں ہی ہوچکا تھا. اب ناظمہ بیگم کے دل میں اکلوتے بیٹے کے سر پہ سہرا سجانے کا ارمان جاگ اٹھا تھا. عدنان کی پسند ملیحہ تھی. جو بے حد خوبصورت ، نیک سیرت ، تعلیم یافتہ ، سلیقہ شعار لڑکی تھی. عدنان کی کلاس فیلو تھی. والد کا ایک ایکسیڈینٹ میں انتقال ہوگیا تھا. بیوہ ماں اور پانچ بہنیں تھیں. ملیحہ سب سے بڑی بیٹی تھی. معاشی حالات مخدوش تھے. ناظمہ بیگم کی یہ خواہش بھی ادھوری رہ گئی کہ " اکلوتے بیٹے کی شادی میں ملے شاندار جہیز سے گھر بھر جائے گا! " حالانکہ عدنان نے گھر میں آرام و آسائش کی تمام اشیاء مہیا کر دی تھیں لیکن وہ نوکری پیشہ اکلوتے بیٹے  کی شادی کو  جہیز پانے کا موقع جان رہی تھیں . انہوں نے اس رشتے کی بہت مخالفت کی لیکن عدنان اپنی ضد پہ اڑا رہا. ناچار انہوں نے رشتے کے لئے حامی بھری. لیکن ملیحہ کے لئے انکے دل میں صرف نفرت تھی. 

 .     ایک خوبصورت سی شام عدنان اور ملیحہ نکاح کے مقدس بندھن میں بندھ گئے. محبت سرخرو ہوئی. اور شاہراہ زندگی گلزار ہوگئی. لیکن یہ خوشیاں عارضی ثابت ہوئیں. ناظمہ بیگم کو ملیحہ ایک آنکھ نہ بھاتی تھی. اس کے ہر کام میں نقص نکالنا ، ہر حرکت پہ نکتہ چینی کرنا اور جلی کٹی سنانا انکا معمول تھا. سعدیہ بھی اس معاملے میں انکا پورا ساتھ دیتی. ماں بیٹی طنز کے تیروں سے ملیحہ کا جگر چھلنی کرتے رہتے. وہ فطرتاً کم گو ، صابر اور شاکر لڑکی تھی. چپ چاپ انکے عتاب کا نشانہ بنی رہتی. دبے لفظوں میں عدنان سے کہا تو اس نے سختی سے اسکی بات رد کردی. " ملیحہ امی زبان کی تیز ہیں لیکن دل کی بہت نرم ہیں. انکی باتوں کو نظر انداز کر دیا کرو. ویسے ہی میں نے تم سے انکی مرضی کے خلاف شادی کرکے انکا دل دکھایا ہے. اب مزید انکی دل آزاری نہیں کرسکتا. تمہیں برداشت کرنا ہوگا! " 

اور برداشت کرنا ، ظلم سہنا ملیحہ کا نصیب بن گیا. عدنان سے محبت کرنے کی سزا شب وروز ملا کرتی. ناظمہ بیگم زہر بھرے لہجے میں نہ صرف اسے بلکہ اسکے پورے خاندان کو صلواتیں سنایا کرتیں. اسکے میکے جانے پہ پابندی لگا رکھی تھی. عدنان نے ایک بار اسے کہیں باہر لیجانا چاہا تو انہوں نے سختی سے منع کردیا کہ " بھلے گھروں کی بہو بیٹیاں پارکوں ، ہوٹلوں اور بازاروں میں نہیں گھوما کرتیں!  " وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا.  مجال نہ تھی کہ ماں کے حکم کی سرتابی کرے. ملیحہ اپنے ناکردہ جرم کی سزا پاتی رہی. ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ یہاں بیٹا اپنی پسند سے شادی کرے تو بے چاری بہو ساس نندوں کی نگاہ میں اپنا مقام بناتے بناتے خود ساس بن جاتی ہے مگر اس حقارت کو جھیلتی رہتی ہے جو محبت کی شادی کے سبب اسے منہ دکھائی میں ملتی ہے. ماں بہنوں کو اسکا کردار مشکوک لگتا ہے .بیٹے کی بیوی سے محبت زن مریدی لگتی ہے. اسی غلط فہمی میں مبتلا ایک پیاری سی لڑکی جسے گھر کی بہو رانی ، بٹیا رانی بن کر خاندان کا اٹوٹ حصہ ہونا چاہیے تھا. ایک ملازمہ بن کر رہ جاتی ہے.!  اسے دلہن نہیں بلکہ دشمن سمجھا جاتا ہے.! 

ماہنامہ اقراء کا تازہ شمارہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے

     ملیحہ کی ذات بھی مشق ستم بنی رہی. عدنان کی خاموشی نے اسے مایوس کر دیا تھا. شاید وہ صرف اسکی " ضد " تھی!  جو پوری ہوگئی .ایک مرد کی انا کی تسکین ہوگئی .! اسکے جذبات اور احساسات کی اسے قطعی پرواہ نہ تھی. کیا پالینا ہی سب کچھ تھا ؟ اسے خوش رکھنا اور اپنے گھر میں اسے جائز مقام دینا کیا اسکا فرض نہ تھا ؟ یہ کیسی محبت تھی ؟ کیسا عشق تھا جس نے محبوب کو بے یار ومدد گار چھوڑ دیا تھا.!!!  

میکے میں بھی ملیحہ کی داد رسی کرنے والا کوئی نہ تھا . مفلس ، بیوہ ماں اور 4 جوان بہنیں..!  وہ کیسے اسکی چارہ گری کر تیں...؟  صبر وضبط کا دامن تھامے وہ انکے مظالم سہتی رہی. ناظمہ بیگم اسکی خاموشی پہ تلملا جاتیں کہ انکا مقصد فوت ہورہا تھا. وہ اسے عدنان کی نگاہوں سے گرانا چاہتی تھیں. اسے بدظن کرنا چاہتی تھیں تاکہ وہ اسے اپنی زندگی سے نکال پھینکے.....!


 وہ موقع کی تاک میں تھیں اور آخرکار انہیں بہانہ مل ہی گیا. عدنان اور ملیحہ کی شادی ہوئے دو سال بیت گئے تھے . لیکن ملیحہ کی گود سونی تھی. ناظمہ بیگم نے اسے بانجھ قرار دے دیا.!

 حالانکہ لیڈی ڈاکٹرز نے اسے بالکل نارمل بتایا تھا. لیکن وہ اسے ہر وقت طعنے دیا کرتیں کہ " منحوس ، بانجھ کہیں کی. میرے بیٹے کی نسل کیسے آگے بڑھے گی. یہ نامراد تو اولاد کا سکھ دے نہیں پارہی .! " جیسے اولاد کا ہونا نہ ہونا ملیحہ کے بس کی بات تھی عدنان اب بھی بےحسی کی چادر اوڑھے ہوئے تھا. اسے بھی اولاد کی کمی محسوس ہورہی تھی. ماں بہن کے مسلسل بہکانے سے اسکے دل میں بھی ملیحہ کے لئے بیزارگی بڑھنے لگی تھی.اب وہ بھی اسے طعنے دینے لگا تھا.  اور اس دن ملیحہ کی بدنصیبی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی جب عدنان نے بھی اس سے منہ موڑ لیا. اسکی بے رخی دن بدن بڑھنے لگی . اور اس نے گھر سے باہر اپنی دلچسپیاں تلاش کر لیں...!


    مرد کی بدلی ہوئی نظر عورت پہچان جاتی ہے. عدنان کی نگاہوں میں شاید کوئی اور سما گیا تھا.  اسکی راتیں باہر گزرنے لگیں. ملیحہ بے دست وپا اپنی ازدواجی زندگی بکھرتے دیکھتی رہی.  

ایک دن کھانے میں نمک زیادہ ہوگیا تھا. اتنی سی بات پہ عدنان نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور ملیحہ سے کہہ دیا " میں تمہارا ناگوار وجود اب اور برداشت نہیں کرسکتا. چلی جاؤ میری زندگی سے. میرے گھر سے.!  "


ناظمہ بیگم اور سعدیہ کے چہروں پہ فاتحانہ مسکراہٹ تھی. ملیحہ زخمی نگاہوں سے عدنان کی طرف دیکھتی رہی کہ شاید وہ اسے روک لے. ! لیکن وہ سنگدلی کی ساری حدیں پار کر گیا تھا . محبت کے سارے دعوے کھوکھلے نکلے. وہ جو اسکی محبت تھی ، زندگی تھی ، ہمسفر تھی . آج اس نے اسے اپنی زندگی سے دور جانے کا فیصلہ سنا دیا تھا. کسی کے دل میں اسکے لئے کوئی جگہ نہ تھی. اس نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا. اور اپنا معاملہ اس عدالت میں پیش کردیا جہاں انصاف یقینی ہے . اور پھر وہ اس گھر سے چلی گئی جہاں ہزاروں آرزوؤں ، ارمانوں کے دیپ دل میں جلائے قدم رکھے تھے. نامراد ، ناشاد ! 


" امی ، امی . میں لٹ گئی ، برباد ہوگئی. اسلم نے دوسری شادی کر لی اور مجھے طلاق دے دی ." ایک صبح سعدیہ روتی بلکتی ، برباد ناظمہ بیگم کے سامنے کھڑی تھی. وہ شسدر رہ گئیں. " حیرت اور دکھ سے آواز نہیں نکل رہی تھی. " کیسے ہوا یہ سب ؟ میں نے تو تجھے شوہر کو مٹھی میں کرنے کے سارے گُر سکھائے تھے.!  پھر وہ ہاتھ سے کیسے نکل گیا ؟ " 

" امی . قسمت کے آگے آپ کا کوئی گُر کام نہ آسکا.جب قدرت کا انصاف ہوتا ہے تو کوئی گُر ، کوئی حربہ کارگر نہیں ہوتا.!    اور  شوہر کا دل محبت سے جیتا جاتا ہے اور محبت کرنا آپ نے نہیں سکھایا! " وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی . ناظمہ بیگم سکتے کے  عالم میں بیٹھی رہ گئیں ....!!!


مظلوم کی آہ عرش کو ہلا دیتی ہے. اور اس عدالت نے انصاف کر دیا تھا.!!!  


" عدل و انصاف فقط حشر پہ موقوف نہیں 

زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے " 




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.