Type Here to Get Search Results !

حزن وملال کی کیفیات کا شاعر: ساغر صدیقی

تحریر- نکہت انجم ناظم الدین



            کسی بھی شاعر کی شاعری اس کے عہد کے نظریات کے ائینہ دار تو ہوتی ہی ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی بیت رہی زندگی کا عکس بھی کہیں نہ کہیں ہمیں اس کی شاعری میں پڑھنے کو ملتا ہے۔زندگی کا رویہ سب کے ساتھ یکساں نہیں ہوتا ہے۔زندگی کسی کے لیے ریشم و کم خواب ہے تو کسی کے لئے کانٹوں بھرا بستر ہے۔عام انسان اپنی زندگی کے اس دور کو اپنی زندگی تک جیتا ہے اور اسکی موت کے بعد ان حالات کا کوئی وجود نہیں رہ جاتا لیکن کسی شاعر و ادیب کی زندگی کے تلخ رویوں کا عکس نمایاں طور پر اس کی شاعری اور تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔فنکار بھلے ہی رہے نہ رہے لیکن اسکی گزری زندگی کے حالات بہ صورت احساسات ہمارے دل میں منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں۔بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی  اپنی حق تلفی کا انتقام بھی خود ہی سے لے اور خود فراموش ہو جائے۔حالات کی ستم ظریفیاں اور شدت احساس اسے اس مقام پر لے اتے ہیں کہ وہ کہنے پہ مجبور ہو جائے کہ:

میں کوئی پھول،نہ ساغر،نہ مہتاب،نہ تو

 بجھا ہوا شبستاں ہے زندگی اپنی

 اور یہ کہنے پر مجبور ہونے والے شاعر ہیں ساغر صدیقی۔

جنھوں نے کہا ہے کہ:

"میری زندگی زنداں کی ایک کڑی ہے"

            ساغر زندگی کے رویہ سے اسقدر دلبرداشتہ رہے ہیں کہ میر اور فانی کی طرح یاسیت ان کے اشعار سے ٹپکتی نظر أتی ہے۔انھوں نے حزن وملال کی ان کیفیات کو بہت عمدگی سے اپنی شاعری میں برتا ہے۔

            ساغر صدیقی 1928 کو امبالہ (مشرقی پنجاب)میں انتہائی مفلس گھرانے میں پیدا ہوئے۔نام محمد اختر رکھا گیا۔تعلیم کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔انہوں نے محلے کے ایک بزرگ کی صحبت میں رہ کر تھوڑا بہت پڑھا۔ اردو گھر میں ہی سیکھی۔ اٹھ سال کی عمر میں اردو میں اتنی مہارت حاصل کر لی کہ اکثر خط لکھوانے کے لیے لوگ ان کے پاس اتے اور ان کے انداز بیاں پر داد دیتے نہ تھکتے۔ ساغر صدیقی اخبار بینی کے بہت شوقین تھے۔ وہ اس وقت کے اخبارات زمیندار،انقلاب اور احسان کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ ساغر صدیقی نے امرتسر جا کر کنگھیاں بنا کر فروخت کرنے کا کام شروع کیا۔دن بھر وہ ایک ملازم کی حیثیت سے دکان میں کام کرتے اور رات کو دکان کے کسی گوشے میں ہی سو جاتے۔ ساغر ابتدا میں ناصر حجازی تخلص کرتے تھے بعد میں ساغر صدیقی کے نام سے لکھنے لگے۔امرتسر کے ایک بڑے مشاعرے میں ساغر صدیقی کے کلام کو خوب سراہا گیا۔ انہوں نے اپنی اواز کا وہ جادو جگایا کہ پورا مشاعرہ لوٹ لیا۔

آفاق میں گونجی ہے میری شعلہ نوائی

 نالے میرے افلاک کا پیوند رہے ہیں

            اس کے بعد سے وہ امرتسر اور لاہور کے سبھی مشاعروں میں بلائے جانے لگے۔مشاعروں سے اتنی کمائی ہونے لگی کہ انہوں نےأمدنی کا دوسرا کوئی ذریعہ نہیں اپنایا۔گھر والے ان سے سخت ناراض تھے کوئی ڈھنگ کا کام نہ کرنے کی وجہ سے گھر کے لوگوں کو لگتا تھا کہ وہ أوارہ ہوگئے ہیں۔گھر والوں کی باتوں کی وجہ سے انھوں نے گھر انا جانا چھوڑ دیا۔  1947 کی تقسیم کے بعد ساغر لاہور چلے ائے وہ لکھتے ہیں کہ:

"1947 کی تقسیم کے وقت میری عمر انیس برس تھی۔جیسے جیسےحالات کا ارتقا جاری رہا میرا شعور اسرار کائنات کا حامل ہوتا گیا۔ تقسیم کے بعد سے صرف شعر لکھتا ہوں۔شعرپڑھتا ہوں،شعر کھاتا ہوں،شعرپیتا ہوں"۔

یہ حیات کی کہانی ہے فنا کا ایک ساغر ؔ

تو لبوں کو مسکراکے اسی جام سے لگائے

            لوح جنوں،شیشہ دل،غم بہار،شب اگہی،سبز گنبد (نعتوں کا مجموعہ)ساغر صدیقی کی تخلیقات ہیں۔

            امرتسر میں دوسری جنگ عظیم کے باغی ازاد ہند فوج کے جرنیلوں کے استقبال کے لیے جلیان والا باغ میں چالیس ہزار لوگوں کا مجمع اکٹھا ہوا اور اتنے بڑے مجمع میں ساغر صدیقی نے اپنی نظمیں پڑھیں۔ ایک نظم کا شعر اس طرح سے ہے کہ:

ہو جس کا رخ ہوائے غلامی پہ گامزن

اس کشتئ حیات کے لنگر کو توڑ دو

            کراچی سے پشاور تک ہونے والے بڑے شہروں کے مشاعرے ساغر صدیقی کی شمولیت کے بغیر نامکمل ہوتے تھے۔ان کا شمار قدأور شعراء میں ہونے لگا۔ پورا مشاعرہ لوٹ لے جانے کی وجہ سے روایت پسند شعراء کا حلقہ ان سے ناراض رہنے لگا۔ان کے ساتھ یہ بھی ہو نےلگا کہ بیرون شہر سے مشاعرے کی دعوت نامے اتے تو وہ دعوت نامہ ساغر تک پہنچنے ہی نہیں دیاجاتا۔

ہر دور میں دیکھا ہے مری فکر رسا نے

کچھ لوگ زمانے کے خداوند رہے ہیں

            ساغر صدقی قومی جذبہ رکھنے والےشاعر تھے۔ انہوں نےاسی جذبے سے مغلوب ہو کر قومی ترانہ لکھا۔'سلام ہے قائد اعظم'جو قومی پرچم کے احترام کی علامت ہوا۔وہ ہفت روزہ 'تصویر'کے ایڈیٹر بھی رہے۔یہ فلمی ہفت روزہ بہت مقبول ہوا۔انہیں سبھی کا تعاون بھی حاصل ہوا۔وہ سخت محنت کرتے۔دفتر کا کام صبح سے رات تک چلتا رہتا۔ لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر اچانک ہفت روزہ تصویر بند ہو گیا۔اس کے بعد ساغر صدیقی نے دوسرا فلمی  اخبار نکالنا شروع کیا لیکن دوستوں کی بے وفائی اور ناکافی مالی وسائل کی بناہ پر بمشکل اس کے تین چار پرچے نکل پائے۔ساغر بہت دلبرداشتہ ہوگئے۔لاہور انہیں پسند تھا لیکن لاہور میں نہ سر پہ چھت تھی نہ ہی زندگی جینے کے دیگر وسائل۔مشاعروں سے ملنے والی رقم بھی اتنی کم ہوتی تھی کہ بمشکل اس سے ایک دن گزارا ہو سکے۔یہ خوش لباس،خوش پوشاک شاعر اتنا مجبور ہو گیا کہ  لباس دھو کر سوکھنے تک انھیں انتظار کرنا پڑتا۔ کسمپرسی کے یہ حالات اور زندگی کی ناگفتہ بہ کہانی نے زندگی میں فاقوں کی نوبت بھی لائی لیکن ساغر نے لفظوں کے موتی پرونے کا کام نہیں چھوڑا۔لوگ متروکہ جائیداد اور نئے عہدوں کے حصول میں ایک دوسرے کو بھلا بیٹھے۔ ایسے میں بھی ساغر نے اس طرح کے کسی کاروبار کے ذریعے اپنا پیٹ بھرنا گوارا نہ کیا۔اس افرا تفری اور نفسا نفسی سے ساغر بہت حیران ہوئے۔یہی وہ وقت تھا جب کچھ نام نہاد دوستوں کی کرم فرمائی سے وہ مدہوشی سے لذت اشنا ہو گئے۔لوگوں نے ان کی اس حالت کا فائدہ اٹھایا اور وہ نشے کی اشیاء فراہم کر کے ان سے شاعری لکھوا لے جاتے اور خود اپنے نام سے پڑھنے لگے۔

بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں

کچھ باغباں ہیں برق وشررسے ملے ہوئے

            اپنوں کی بے رخی نے ساغر کو ہمیشہ مدہوش رہنے کی خواہش میں مبتلا کر دیا۔ نوبت یہ ائی کہ وہ لباس سے بھی بیگانہ ہو گئے۔اکثر چھیتڑوں میں ملبوس کسی سڑک کے کنارے نشے میں دھت پڑے رہتے۔

فقیہہ شہر نے تہمت لگائی ساغر پر

یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے

            امدنی کی فکر جاتی رہی۔پاس سے کوئی جان پہچان والا یا کوئی دوست گزرتا تو وہ اس سے چونی کا تقاضا کرتے اور اس طرح سے دن بھر کچھ روپیے جمع کر کے وہ پیسے اور دوستوں کی کما کر کھانے والی نصیحتوں کو ساتھ میں ہی نشے میں اڑا دیتے۔

میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور

میں اج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا

پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

            وہ اپنے لیے لفظ 'فقیر' کا استعمال کرنے لگے۔ فقیر کا دل بہت اداس ہے،فقیر نے ایک نظم لکھی ہے۔جیسے جملے اپنے بارے میں کہنے لگے۔ مدہوشی اور مسلسل مدہوشی نے کھانے پینے سے بھی بیگانہ کر دیا۔انہیں کھانے کو کچھ مل جاتا تو کھا لیتے ورنہ بھوکے تو رہنا ہی تھا۔کچھ عرصے بعد انہیں فلموں کے گانےبھی أفر کیے گئے۔ جس سے فلمی شاعر حسد کی اگ میں جل اٹھے لیکن شہرت سے بھی ساغر کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔انہوں نے چار دن کی خوشی کے بعد پھر خود کو اسی ماحول کے حوالے کر دیا جس میں اب تک گزر بسر ہو رہی تھی۔ داتا حضور کے دربار میں یا اس کے أس پاس وہ اکثرنظر اتے۔ ننگے پیروں چلتے رہنے کی وجہ سے پیر میں زخم أجاتے، ان سے خون اور پیپ بہنے لگ جاتی لیکن انہیں کبھی اپنے علاج کی فکر نہ ہوئی۔ساغر صدیقی اپنے دوست سے اپنی حالت کے بارے میں خود کہتے ہیں کہ:

"اللہ ہی وارث ہے۔ پتہ نہیں منزل کون سی ہے، حواس گم ہیں، ایک نہ سنائی دینے والے گونج میرے چاروں طرف بکھری ہوئی ہے اور میں جیسے خدا کے سامنے بے بس ہو گیا ہوں شاید خدا کا یہی مقصد ہے۔ میں رات کو داتا حضور کی گلیوں میں گھومتا ہوں تو یہ بات میرےاحساس کو فروزاں کر دیتی ہے کہ میں مدینے کی گلیوں میں پھر رہا ہوں"۔

            نومشق شعراء،حالات سے گھبرائے ہوئے نوجوان،فقیر پرست لوگ ساغر کے عقیدت مندوں میں شامل تھے۔وہ جہاں جاتے ان کے یہ مداح پہنچ جاتے۔یونس ادیب نے جب لیل و نہار میں1962 میں ساغر صدیقی کے بارے میں ایک مضمون 'رات کا تاریک سایہ' کے عنوان سے لکھا تو اس کا یہ اثر ہوا کہ اس مضمون سے متعلق سینکڑوں خطوط انھیں موصول ہوئے۔جس میں زیادہ تر خطوط صنف نازک کی طرف سے تھے۔ جس میں ساغر کے حالات کے بارے میں شدید دکھ کا اظہار کیا گیا تھا۔ یونس ادیب کہتے ہیں کہ بعد میں پتہ چلا کہ دو برقعہ پوش لڑکیاں کئی دن کار میں انھیں تلاش کرنے مارکیٹ میں أتی رہیں۔ساغر کو اس حقیقت کا پتہ چلا تو وہ سخت خفا ہوئے اور یونس ادیب سے کئی روز بات تک نہ کی۔

میں التفات یار کا قائل نہیں ہوں دوست

سونے کے نرم تار کا قائل نہیں ہوں دوست

مجھ کو خزاں کی ایک لٹی رت سے  پیار ہے

میں رونق بہار کا قائل نہیں ہوں دوست

            لوگ ساگر کی بدحالی اور مفلسی کا فائدہ اٹھاتے نہیں تھکتے تھے۔وہ اس شاعر سے اس کی نظمیں خرید لے جاتے جو شاعری کے افق کا ایک درخشندہ ستارہ تھا لیکن اج وہ گمنام اور بدنام ہوا جا رہا تھا اور  اس کے فیض سے نااہل لوگ مشہور اور نیک نام ہوئے جا رہے تھے۔

آج گمنامی احساس کا پرچم لے کر

أدمی شہرت یزداں سے الجھ بیٹھے ہیں

            کہا جاتا ہے کہ ساغر صدیقی کی نظم 'جوگی' کسی رسالے میں ایک ایڈوکیٹ کے نام سے چھپی۔جو بہت مشہور ہوئی۔جب جب وہ ایڈوکیٹ اس نظم کو مشاعروں میں پڑھتا تو لوگ تڑپ جاتے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایڈوکیٹ جگہ جگہ ساغر کو ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ ان سے دوسری شاعری بھی لکھوا سکے۔ چلتے پھرتے کوئی شاعری سنانے کا تقاضا کرتا تو موڈ ہونے پر ساغر اسے اپنی شاعری سنا دیتے اور اگر موڈ نہ ہوتا تو ٹال دیتے۔ساغر پر فالج کا حملہ ہوا تو دایاں بازو بےکار ہو گیا۔ جس کا انھیں شدید دکھ تھا۔وہ کہتے تھے کہ اگر ہاتھ بیکار ہی ہونا تھا تو بایاں ہو جاتا دایاں باقی رہتا۔ انہیں یہ فکر لاحق ہو گئی کہ اب وہ کیسے لکھیں گے۔فالج کے اس حملے نےانھیں ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن وہ یہ بھی کہتے سنے جاتے کہ ذہن تو بچ گیا ہے۔ساغر صدیقی کی بینائی نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔چلنے پھرنے میں دقت ہونے لگی۔وہ چھڑی کے سہارے چلنے لگے اواز بھی کم ہونے لگی۔ کچھ لفظ بولنے کے لیے جسم کی پوری توانائی استعمال کرنی پڑتی تھی۔ خواجہ شفیع نے بہت اصرار کیا کہ وہ ہسپتال چلیں لیکن وہ کسی طور راضی نہ ہوئے۔وہ شاعر جس کی اواز ہر مسئلے پر گونجی۔جس نے کئی مشاعرے لوٹ لیے۔جس کے سوز سے سامعین تڑپ گئے۔اسی اواز کو ساغر صدیقی اپنے گلے سے نکالنے کی کوشش کرتے تو کھانسی کا شدید دورہ پڑ جاتا اور منہ سے خون بہہ نکلتا۔

            وہ شخص جو اپنی زبان سے فکروفن کے موتی اگلتا تھا خون تھوکنے لگا۔

میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے

میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

            ان کی اخری حالت کو بیان کرتے ہوئے یونس ادیب لکھتے ہیں کہ :

"وہ اتنی دور جا چکا تھا کہ ایک قدم واپس نہیں أسکتا تھا۔چھڑی بھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی تھی۔اس چاک گریباں کا پھٹا پرانا کرتہ خون ألود تھا اور یوں لگتا تھا کہ سارا زمانہ اس کے مرنے کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔18 جولائی 1974 کی صبح کو اپنے چور چور جسم کوسوگوار روح کے ساتھ لے کر اپنے بھائی کے گھر پہنچ گیا۔خواجہ شفیع نے بتایا کہ اسے دروازے پر دستک دینے کی ضرورت بھی پیش نہیں ائی کیونکہ وہ اپنی لاش اپنے ہاتھوں وہاں رکھ گیا تھا۔ کھڑکیوں،دروازوں اور چھتوں سے عورتیں،بچے اور مرد اس لاش کا نظارہ حیرت سے کر رہے تھے"۔دوسرے روز یعنی 19جولائی 1974 کو ساغر صدیقی انتقال کرگئے۔

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغر

زندگی کی کوئی کڑی ہوگی

            وہ میانی صاحب قبرستان لاہور میں دفنائے گئے۔ساغر دنیا کے تلخ رویوں اور بے رخی سے پریشان تھے۔وہ شکوہ کرتے ہوئے نظر اتے ہیں کہ:

دکھ درد کی سوغات ہے،دنیا تری کیا ہے

اشکوں بھری برسات ہے،دنیا تری کیا ہے

تقدیر کے چہرے کی شکن دیکھ رہا ہوں

ائینۀ حالات ہے، دنیا تری کیا ہے

            وہ شخص جسے زندگی نے بہت ستایا،رلایا،تڑپایا،دربدر کیا۔أج خاک کی چادر  اوڑھے سکون کی نیند سورہا ہے۔

أسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے۔

ساغر صدیقی  کے کچھ اشعار

آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

*****

جانے والے ہماری محفل سے

 چاند تاروں کو ساتھ لیتا جا

ہم خزاں سے نباہ کر لیں گے

 تو بہاروں کو ساتھ لیتا جا

*****

جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

*****

میں شعاؤں میں پگھل جاؤں مری فطرت نہیں

وہ ستارہ ہوں کہ جس کو ڈھونڈتی ہے روشنی

*****

بہر صورت ہماری ذات سے ہیں سلسلے سارے

جنوں کی سادگی ہم ہیں خردکا بانکپن ہم ہیں

*****

تری محفل میں ساغر سا بھی کوئی اجنبی ہوگا

یہ ظالم ایک مدت سے نہ اپنا ہے نہ بیگانہ

*****

ایک نغمہ،ایک تارا،ایک غنچہ، ایک جام

اے غم دوراں!غم دوراں تجھے میرا سلام

*****

اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے

دنیا کی حقیقت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے


************

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.