Type Here to Get Search Results !

Ghazlein

غزلیں ( کلامِ ساغر صدیقی)



 روداد محبت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے 

دو دن کی مسرت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے 

جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں 

اک ہوش کی ساعت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے 

اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنم رقصاں ہے 

بیداد مشیت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے 

احساس کے مے خانے میں کہاں اب فکر و نظر کی قندیلیں 

آلام کی شدت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے 

کچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کچھ ماضی کے عیار سجن 

احباب کی چاہت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے 

کانٹوں سے بھرا ہے دامن دل شبنم سے سلگتی ہیں پلکیں 

پھولوں کی سخاوت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے 

اب اپنی حقیقت بھی ساغرؔ بے ربط کہانی لگتی ہے 

دنیا کی حقیقت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے 

*******

وقت کی عمر کیا بڑی ہوگی 

اک ترے وصل کی گھڑی ہوگی 

دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر 

کوئی برسات کی جھڑی ہوگی 

کیا خبر تھی کہ نوک خنجر بھی 

پھول کی ایک پنکھڑی ہوگی 

زلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر 

چاندنی سے صبا لڑی ہوگی 

اے عدم کے مسافرو ہشیار 

راہ میں زندگی کھڑی ہوگی 

کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے 

جاں کسی پھول کی اڑی ہوگی 

التجا کا ملال کیا کیجے 

ان کے در پر کہیں پڑی ہوگی 

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ 

زندگی کی کوئی کڑی ہوگی 

*******

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں 

ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں 

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں 

ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں 

دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو 

مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں 

مرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں 

آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں 

کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر 

آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں 

حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغرؔ 

سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں 

*******

وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو 

ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو 

یہ کناروں سے کھیلنے والے 

ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو 

بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے 

ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو 

آج ہم بھی تری وفاؤں پر 

مسکرائیں تو کیا تماشا ہو 

تیری صورت جو اتفاق سے ہم 

بھول جائیں تو کیا تماشا ہو 

وقت کی چند ساعتیں ساغرؔ 

لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو 

*******

متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں 

فرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں 

جہان رنگ و بو الجھا ہوا ہے ان کے ڈوروں میں 

لگی ہیں کاکل تقدیر سلجھانے تری آنکھیں 

اشاروں سے دلوں کو چھیڑ کر اقرار کرتی ہیں 

اٹھاتی ہیں بہار نو کے نذرانے تری آنکھیں 

وہ دیوانے زمام لالہ و گل تھام لیتے ہیں 

جنہیں منسوب کر دیتی ہیں ویرانے تری آنکھیں 

شگوفوں کو شراروں کا مچلتا روپ دیتی ہیں 

حقیقت کو بنا دیتی ہیں افسانے تری آنکھیں 

*******

بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے

تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے

منزل نہیں ہوں خضر نہیں راہزن نہیں

منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے

میری نگاہ شوق سے ہر گل ہے دیوتا

میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے

نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے

اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے

گم صم کھڑی ہیں دونوں جہاں کی حقیقتیں

میں ان سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے

ساغرؔ کسی کے حسن تغافل شعار کی

بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے

(ساغر ؔصدیقی)

*******

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.