Type Here to Get Search Results !

Saghar Siddiqui

 جس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی 
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

از : فہیم خاتون مسرت 


                 جیسے مشہور شاہکار مبنی بر حقیقت شعر کے خالق پاکستانی شاعر ساغر صدیقی 1928ء میں انبالہ کےغریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا پیدائشی نام محمد اختر تھا۔غربت اور معاشی بدحالی کیوجہ سے تعلیم کا حصول باقاعدہ طور پر ان کے لئےممکن نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔ ساغر کا بچپن انتہائی نا مساعد حالات میں گزرا۔ ساغر نے حبیب حسن خاں سے گھر پہ ہی اردو زبان کی تعلیم حاصل کی۔نوعمری میں ہی فکر روزی میں امرتسر چلے گئے اور وہاں چھوٹے موٹے کام کرنے لگے، انھوں نے کنگھیاں بنانےکا ہنرسیکھااور اپنی گزراوقات کے لئے کنگھیاں بناکر بیچنے لگے۔۔ان کی زندگی کی تلخیوں نے کچھ حالات نے اور کچھ شوق نے انہیں شعرگوئ کی جانب مائل کیا۔

                 1944ء میں امرتسر میں آل انڈیا مشاعرہ منعقد ہوا، جس میں میں کسی نے ساغر کو بھی پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا، روانی تھی اور وہ مشاعرے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی اوّلین مشاعرے نے انھیں‌ مشہور کردیا تھا۔ وہ لاہور اور امرتسر کے مشاعروں میں باقاعدہ مدعو کیے جانے لگے۔1947ء سے لے کر 1952ء تک کا زمانہ ساغر کے لیے سنہرا دور ثابت ہوا۔ کئی روزناموں، ماہوار ادبی جریدوں اور ہفتہ وار رسالوں میں ساغر کا کلام بڑے نمایاں انداز میں شائع ہوتا رہا۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے گئے۔

ساغرصدیقی کا کہنا تھا:

میری ماں دلی کی تھی، باپ پٹیالے کا، پیدا امرتسر میں ہوا، زندگی لاہور میں گزاری! میں بھی عجیب چوں چوں کا مربّہ ہوں۔

 

                فلمی دنیا نے ساغر کی مقبولیت دیکھی تو کئی فلم پروڈیوسروں نے ان سے گیت لکھنے کی فرمائش کی اور انہیں معقول معاوضہ دینے کی یقین دہانی کرائی۔ 1952ء کے بعد ساغر صدیقی خراب صحبت کی بدولت ہر طرح کے نشے کےعادی ہوگئے۔ وہ  شراب، افیون اور چرس وغیرہ استعمال کرنے لگے۔ اسی عالم مدہوشی میں بھی مشقِ سخن جاری رہتا اور ساغر غزل، نظم، قطعہ اور فلمی گیت ہر صنف سخن میں شاہکار تخلیق کرتے جاتے۔ اس دور مدہوشی کے آغاز میں بھی لوگ انہیں مشاعروں میں لے جاتے جہاں ان کے کلام کو بڑی پذیرائی ملتی۔

ساغر نے کہا:

تقسیم کے بعدصرف شعر لکھتا ہوں، شعر پڑھتا ہوں، شعر کھاتا ہوں، شعر پیتا ہوں۔

                کہتے ہیں ساغر نشے کے لیے رقم دینے والوں کے لیے کلام لکھ کر دینے لگے تھے جو وہ اپنے نام سے شائع کرواتے تھے۔ ساغر صدیقی نے ہر صنفِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور ان کا کلام مقبول ہوا۔زہر آرزو، غم بہار، شب آگہی، تیشۂ دل، لوح جنوں‘ سبز گنبد، مقتل گل‘۔ کلیات ساغر ان کی مشہور تصانیف ہیں۔

ساغر صدیقی صاحب فرماتے ہیں:

میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا 

غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا

 ساغرؔ وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجیے حضور 

ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا

                 جنوری 1974ء میں وہ فالج میں مبتلا ہو گئے۔ اس کی وجہ سے ان کا دایاں ہاتھ‍ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا۔ پھر کچھ‍ دن بعد منہ سے خون آنے لگا، جسم سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو گیا۔ ساغر صدیقی کا آخری وقت داتا دربار کے سامنے پائلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر گذرا غم دوراں کا یہ شاعر جس نے زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی تھی۔ 19 جولائی 1974ء کی صبح کو اسی فٹ پاتھ پر دم توڑگیا۔


 زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے 

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

ساغر صدیقی کی یہ غزل مجھے بہت پسند ہے۔

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں

ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں

دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو

مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں

مرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں

آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں

کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر

آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں

حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغرؔ

سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں


*******

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.