Type Here to Get Search Results !

غافل



 از : محمد علی صدیقی 


"او سونے والو۔۔۔!! اٹھو۔۔۔۔"

اس نے گرجدار آواز میں کہا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ انھیں جھنجھوڑ کر جگا دے گا۔ لیکن سامنے تو موت کا سنّاٹا طاری تھا۔

اس نے للکارتے ہوئے کہا، "تم تو سو رہے ہو تم کیا جانو۔۔۔!! مذہب کا غلاف اوڑھ کر جاہلوں پر حکومت کرنے والوں نے پوری قوم کو ہلاکت میں ڈال رکھا ہے، انھوں نے برسوں جہالت کی کھیتی کی ہے اور قوم کی اکثریت کو غفلت کی نیند میں سلا دیا ہے" ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سارے مذہبی رہنماوں سے ازلی بیر رکھتا ہو۔ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے سمجھانے والے انداز میں بولا

"ذرا سوچو۔۔۔ جب اللہ نے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے تو دنیاوی زندگی کو باوقار بنانا بھی تو ضروری ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دنیا میں دوسری قومیں تو عزت کے ساتھ رہیں اور ہم ذلیل و خوار ہوتے رہیں، مگر یہ تو بس۔۔۔ جنت بیچ رہے ہیں اور ہر دکاندار کا دعویٰ ہے کہ جنت اسی کے پاس ہے۔۔۔۔"

اچانک اس کی آواز دھیمی پڑ گئی اور وہ بڑبڑاتے ہوئے بولا

"لیکن میں ان سے زندگی کی باتیں کیوں کر رہا ہوں، یہ تو موت کی نیند سو رہے ہیں۔۔۔۔!!"

اس نے بے چین نگاہوں سے چاروں طرف دیکھا جیسے مٌردوں میں زندگی تلاش کر رہا ہو پھر مایوس ہو کر خود کلامی کرتے ہوئے اپنے آپ سے بولا

"انھیں جگانا ہو گا۔۔۔ ہاں انھیں جگانا ہو گا۔۔۔ لیکن موت کی نیند سے انھیں جگائے گا کون۔۔۔!!"

اچانک اسکے چہرے میں ایک تناو سا پیدا ہوا اور اس نے شہادت کی انگلی سے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے پرجوش لہجے میں کہا

"میں جگاوں گا انھیں۔۔۔ ہاں۔۔۔! میں انھیں جگاوں گا۔۔۔ میں۔۔۔"

اسکی آواز ہیجان انگیز ہوتی جا رہی تھی۔ وہ نہ جانے اور کیا کہنے والا تھا کہ اچانک قبرستان کے مجاور نے اسے دیکھ لیا اور اسکی پیٹھ پر ایک زوردار ڈنڈا رسید کرتے ہوئے چلّایا 

"پاگل۔۔۔!! بار بار چلا آتا ہے۔۔۔۔"

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.