Type Here to Get Search Results !

سر بہ مہر گلاس



از : محمد مصعب



باغبانوں نے باغِ جنت سے سر بہ مہر گلاس بھیجے ہیں , شہنشاہِ ثمرات آم کی آمد ہے , کوئل کی کو کو سے باغوں میں ایک سماں سا بندھا ہوا ہے , ڈالیاں آموں کو اپنے سینوں سے لگاۓ ہوۓ فرحت و مسرت سے جھوم رہی ہیں , بھینی بھینی خوشبو فضا کو معطر کر رہی ہے , دسہری کی آمد سے تو منڈیوں میں دسہرا سا لگا ہوا ہے , اور ایسا کیوں نہ ہو آم تو ہے ہی ایسا شیریں دلکش و بے مثال پھل کہ جسکی پرکشش بناوٹ اور شیریں ذائقہ اسے دنیا کے سب سے زیادہ کھاۓ جانے والے پھلوں میں سے ایک بنا دیتا ہے , آم کا آبائی وطن تو جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا ہے لیکن یہ دنیا کے تمام استوائی علاقوں میں ہوتا ہے , پر برصغیر میں اسکی پیداوار سب سے زیادہ ہوتی ہے اسی وجہ سے یہ ہند و پاک کا قومی پھل بھی مانا جاتا ہے , جون جولائی کی گرمی اور برسات کی رم جھم میں کوئی پھل اگر احساسِ تازگی و خوشگواری , فرحت و سکون عطا کرتا ہے تو وہ پھلوں کا بادشاہ آم کی آمد ہے , جسکے خوش رنگ اور خوش ذائقہ کے سامنے دیگر تمام پھلوں کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں , آم نہ صرف کھانے ہی میں بے حد لذیذ و خوش ذائقہ ہے بلکہ اسے ہر عمر کا بندہ بہت ہی شوق سے کھاتا , شاذ و نادر ہی کوئی ایسا بدذوق ہوگا جسے آم پسند نہ ہو , یُوں تو آم ہر خاص و عام کی اولین پسند ہے پر کیا آپکو پتہ ہے کہ عاشقین آم میں ہمارے دو مشہور و معروف شاعر کا نام بھی شامل ہے , بھلا کون ؟ اجی اقبال اور غالب : 

  آموں کا ایک موسم  علامہ اقبال پر بہت سخت گذرا , ہوا یہ کہ حکیم صاحب نے علامہ صاحب کو آموں سے پرہیز کرنے کو کہہ دیا , پر جب دیکھا کہ مریض کا دل آموں کے لئے کچھ زیادہ ہی مچل رہا رہے تو کہا کہ اچھا آپ دن میں صرف ایک آم کھا سکتے ہیں , تب علامہ اقبال نے علی بخش کو یہ ہدایت دی کہ بازار میں گھوم پھر کر دیکھنا اور جو آم سب سے بڑا نظر آۓ وہی لایا کرنا , 

اب مرزا نوشہ ( اسد اللّٰه خاں غالب ) کے متعلق بھی ایک لطیفہ سن لیجیئے ,  غالب یار دوستوں کے ساتھ اپنے گھر کے چبوترے پر بیٹھے تھے , سامنے سے کچھ گدھے گذرے , گذرگاہ کے ایک گوشے میں آم کی گٹھلیوں اور چھلکوں کو دیکھ کر ایک گدھا رکا , پر چھلکوں اور گٹھلیوں کو سونگھ کر آگے بڑھ گیا , ایک دوست نے ازارہ لطف کہا مرزا صاحب آپ نے مشاہدہ فرمایا : گدھے بھی آم نہیں کھاتے , مرزا صاحب مسکراۓ اور کہا : ہاں گدھے آم نہیں کھاتے __ 

چلو اب بات کرتے ہیں آم کی قسموں کی , یوں تو دنیا بھر میں آم کی ہزاروں قسمیں پائی جاتی ہیں , پر بھارت میں دسہری , لنگڑا , چونسا , وغیرہ جیسے آموں کا بول بالا ہے ۔

آموں کی سلطنت میں دسہری کو وہی مقام و مرتبہ حاصل ہے جو ڈریلس ارطغل میں حلیمہ سلطان کو حاصل ہے , ہاں بھئی لکھنؤ والوں کے لئے دسہری کسی شہزادی سے کم نہیں , جسکے بارے میں کہا جاتا ہے وااہ وااہ یہ لکھنؤ کی نایاب دسہری ہے , دسہری کے حسن و ذائقہ کے سامنے جام و سبو خم ہیں ,  دسہری کے ساتھ ساتھ ہی اسکا بھائی لنگڑا بھی پروان چڑھتا ہے , لنگڑے کا ذکر آتے ہی علامہ اقبال کا ایک خط یاد آ گیا ذرا ملاحظہ فرمائیے ! 

آموں کی کشش کششِ علم سے کچھ کم نہیں , یہ بات بلامبالغہ عرض کرتا ہوں کہ کھانے پینے کی چیزوں میں صرف آم ہی ایک ایسی شے ہے جس سے مجھے محبت ہے , ہاں آموں پر ایک لطیفہ یاد آ گیا , گزشتہ سال مولانا اکبر نے مجھے لنگڑا آم بھیجا تھا , میں نے پارسل کی رسید اس طرح لکھی __

اثر یہ تیرے اعجاز مسیحائی کا ہے اکبر 

الہٰ باد سے لنگڑا چلا لاہور تک آیا _

ہاں تو اس زمانے میں لنگڑوں کا بول بالا تھا پر اب تو لنگڑا لنگڑاتے لنگڑاتے کہیں پیچھے رہ گیا , اب تو چونسا کی دھوم دھام ہے , جو اپنی ایک خاص جسمانی ساخت اور عمدہ ذائقہ سے پہچانا جاتا ہے , چونسا کو وہی مقام و مرتبہ حاصل ہے جو مقام و مرتبہ امیرِ جماعت کو حاصل ہوتا ہے ,  کیونکہ یہ تمام آموں کو رخصت کرنے بعد ہی اپنا رخت سفر باندھتا ہے , چونسا کے علاوہ سفیدہ , الفانسو , مالدہ , اور دیسی آموں کا شمار بھی بہترین آموں میں ہوتا ہے , دیسی آم معمر لوگوں کو کچھ زیادہ ہی راس آتا ہے , صحت کے اعتبار سے دیسی آم بمقابل دیگر آموں کے زیادہ مفید ہے __

آم نہ صرف ذائقہ کے اعتبار سے عمدہ پھل ہے بلکہ جسمانی صحت کے اعتبار سے بھی نہایت ہی مفید ہے , آموں میں بیس سے زیادہ وٹامنز اور زیادہ سے زیادہ معدنیات ہوتے ہیں __

بلاشبہ ایسا رسدار , رنگدار , ذائقےدار , خوشبودار پھل قدرت الٰہی کا ایک ادنٰی سا نمونہ ہے __


Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.