Type Here to Get Search Results !

پروین شاکر کی شاعری:ایک توانا نسائی آواز

پروین شاکر کی شاعری:ایک توانا نسائی آواز 



ڈاکٹر محمد اشرف کمال
صدر شعبہ اردو :گورنمنٹ گریجویٹ کالج بھکر


            پروین شاکر:(پیدائش ۲۴ نومبر ۱۹۵۲ء۔وفات ۲۶ دسمبر ۱۹۹۴ء)بہت کم وقت مین ایک توانا شعریا ور نسائی آواز کے ساتھ اردو شعروادب میں ظہور پذیر ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے شعری افق پر چھا گئیں۔ان کے پہلا ہی شعری مجموعہ ’’خوشبو‘‘ ان کی مقبولیت اور شہرت کا سبب بنتا چلا گیا۔ان کے دیگر شعری مجموعے خود کلامی، صد برگ، انکار اوران کی وفات کے بعد کلیات ’’ماہ تمام‘‘ آج بھی قارئین میں مقبول ومعروف ہیں۔

    ساری دنیا میں عورت کی شاعری کو ایک محدود طبقے اور درجے کی شاعری سمجھ کر دوسرے درجے کے شہری کی دوسری درجے کی شاعری بنانا ایک عوامی رویہ رہا ہے۔مگر سیفو، اینا ایخما توف، سلویا پلاتھ،لی چنگ چاؤ، میرا بائی، ایڈرن رچ، فروغ فرخ زاد اور ایریکا ژون کی شاعری شعری افق پراسلوب اور اظہارِ فن کو اہمیت دی۔‘‘(۱)

        پروین شاکر کی شاعری ایک ادھوری عورت کے المناک پہلو کو پیش کرتی ہیں ۔ وہ عورت جسے معاشرے مین زبردستی اور دیدہ ودانستہ ادھورا رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔خاطر غزنوی اپنے مضمون ’’ایک پوری عورت(پروین شاکر)‘‘ میں پروین شاکر کے نسائی خیالات ونظریات کو زیر بحث لائے ہیں اور ان کی وہ نظمیں جن میں ایک عورت کا کرب موجود ہے انھیں پیش کرکے ان پر سیر حاصل بات کی ہے۔وہ لکھتے ہیں:

            ’’میں نے اسے پوری عورت کہا ہے کہ اس نے ہر ادھوری عورت کی وکالت کی ہے۔اس کے دکھوں کی ترجمانی کا بیڑہ اٹھایا ہے، انھی کے باعث اسے جینوئن (Genuine)یا نااہل قلم خواتین کی کوئی کمی نہیں رہی جن کے کلام میں عورت کے بجائے واضح طور پر مرد بولتے سنائی دیتے ہیں۔‘‘(۲)

    محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو صنف نازک میں مردوں کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے کیونکہ وہ زیادہ حساس طبع ہوتی ہیں اسی لیے محبت میں ان کا رویہ مردوں کی نسبت مختلف انداز کاہوتا ہے۔ڈاکٹر روبینہ رفیق کا مضمون ’’پروین شاکر کی شاعری کی نسائی اور سماجی جہتیں‘‘تانیثیت اور نسائیت کے سیاق وسباق میں لکھے جانے والا ایک ایسا مضمون ہے جس میں انھوں نے پروین شاکر کی نسائی شاعری کا جائزہ محبت ، عورت اور جذبے کی روشنی میں لیا ہے۔

            ’’پروین شاکر کی شاعری عورت کے داخلی جذبوں کی تفہیم کے ساتھ ساتھ ان جذبوں کے اظہار پر سماجی رد عمل کی سفاکی کو بھی نمایاں کرتی ہے اور یہ بھی کہ محبت کی ریاضت اور سپردگی کے ایثار کے ساتھ اکثر اوقات منافقت ہوتی ہے۔::(۳)

جوخواب دیکھا تھا شہزادیوں نے پچھلے پہر

پھر اس کے بعد قسمت میں تاج وتخت نہ تھا۔

گئے وہ دن کہ مجھی تک تھا میرا دکھ محدودد

خبر کے جسیا یہ افسانہ لخت لخت نہ تھا (صد برگ، ص۱۵،۱۶)

اسی پیرائے میں ان کی نظم’’زود پشیمان ‘‘ ملاحظہ کیجئے:

گہری بھوری آنکھوں والا اک شہزادہ 

دور دیس سے

چمکیلے، مشکی گھوڑے پر ہوا سے باتیں کرتا 

جگر جگر کرتی تلوار سے جنگل کاٹتا آیا

دروازوں سے لپٹی بیلیں پرے ہٹاتا

جنگل کی بانہوں کی جکڑے محل کے ہاتھ چھڑاتا

جب اندر آیا تو دیکھا

شہزادی کے جسم کی ساری سویاں زنگ آلودہ تھیں

رستہ دیکھنے والی آنکھیں 

سارے شکوے بھلا چکی تھیں! (صد برگ، ص۱۷)

پروین شاکر کی شاعری میں داخل سے کارج کا سفر ملتا ہے اور کبھی کارج سے داخل کا۔ وہ دونوں قسم کے جذبات کے اظہار میں مہارت رکھتی ہیں۔

            ’’پروین شاکر کی شاعری ماحول کی ترجمانی، کیفیات قلبیہ، الفاظ کی سلاست اور بیان میں درد، روزمرہ زندگی کی مثالوں سے مزین ہے۔(پروین شاکر کی شاعری میں سائنسی شعور،ڈاکٹر انوار احمد ،خالد جاوید، مشمولہ، جرنل آف ریسرچ (اردو) بہاء الدین زکریا یونیورسٹیٰ ملتان،شمارہ ۱۴، ۲۰۰۸ء،ص۱۵۵)

اس بار جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے

چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے (صد برگ)

پروین شاکر اردو نظم میں ایک توانا تانیثی آواز کے طور پر گونجتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔

            ’’پروین شاکر نے عورت کو ہر زاویے سے دیکھا ہے یعنی محض ایک لڑکی، محض ایک عورت، ایک وفا شعار عورت، ایک مظلوم عورت، ایک ماں کی مامتا لیے عورت،انا کے شجر سے غیر پیوستہ خشک شاخ گل عورت شہزادی ،ایک باغی عورت اور پھر ایک بری عورت، لیکن کیا برائیاں صرف عورت تک محدود ہوتی ہیں ۔برائی تو زمان ومکان کا مقدر ہے۔ ہر مثبت کا ایک منفی پہلو بھی ہوتا ہے۔۔۔اس نے عورت کا باطن بھی دیکھا ہے اور ظاہر بھی۔(۴)

پروین شاکر کی نظم’’بشیرے کے گھر والی‘‘ کی یہ چند لائنیں ملاحظہ کیجئے:

سولھواں لگتے ہی

ایک مرد نے اپنے من کا بوجھ

دوسرے مرد کے تن پہ اتار دیا

بس گھر اور مالک بدلا۔۔۔تیری چاکری وہی رہی

        اردو شاعری میں جن شاعرات کے نام نمایاں ہیں ان میں کنیز فاطمہ حیا، شمیم ملیح آبادی، زہرہ نگاہ،ادا جعفری، کشور ناہید، پروین فنا سید، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، شاہدہ حسن، عرفانہ عزیز، شبنم شکیل، ناہید قاسمی، نوشی گیلانی، رشیدہ سلیم سیمیں، زاہدہ صدیقی، نیلما تصور، غزالہ خاکوانی،شاہین مفتی،حمیدہ شاہین کے نام قابل ذکر ہیں۔

        پروین شاکر اردو نسائی غزل میں موضوع اور نسائی جذبات وتصورات کی پیش کش کے حوالے اہمیت کی حامل رہی ہیں۔انھوں نے اس وقت عورت کے حق میں آواز اٹھائی جب کہ اردو شاعری میں عورتوں کی آواز کو زیادہ پذیرائی نہیں دی جاتی تھی۔اس نے اپنی نامرادیوں اور نسائی کرب کو اپنی شاعری میں محفوظ کردیا۔

            اس نے ساری زندگی اور ادب کے ہر میدان میں مردوں کی برابری کی نہ صرف ہمسری کی بلکہ ان پر اپنی برتری ثابت کردکھائی۔اس کو بھی دانش وروں نے گھیرنے کی کوشش کی لیکن اس نے ان کے ہاتھوں نہ تو نرودا کے  بسکٹ قبول کیے اور نہ ہی کافکا کی کافی پی۔ دانشور اس کے آگے دبک جاتے۔‘‘(۲۰۔عبداللہ جاوید‘ڈاکٹر:پروین شاکر مشمولہ سیپ، کراچی،شمارہ ۷۴،۲۰۰۵ء، ص۵۶)

        یہ بات اپنی جگہ ایک سوال رکھتی ہے کہ پروین شاکر کی شاعری نسائی جذبات کے حوالے سے مرد ذات ہی کے گرد گھومتی ہے۔اس کی توجہ، محبت اور وفا کے لیے۔۔۔

میں سوچتی ہوں کہ مجھ میں کمی تھی کس شے کی

کہ سب کا ہوکے رہا وہ بس اک مرا نہ ہوا (پروین شاکر)

         پروین شاکر کی شاکر دراصل ایسی نسائی آواز ہے جو کہ مردوں اور کئی چہرے رکھنے والوں کے لیے ایک تازیانے کا کام کرتی ہے۔ 

            ’’پروین نسوانی انا کا ایک نشان اور نسوانیت پر بھرم کا ایک استعارہ تھی۔(۲۰۔عبداللہ جاوید‘ڈاکٹر:پروین شاکر مشمولہ سیپ، کراچی،شمارہ ۷۴،۲۰۰۵ء، ص۵۷)

ردا چھلنی مرے سر سے مگر میں کیا کہتی

کٹا ہوا تو نہ تھا ہاتھ میرے بھائی کا

اب کیسی پردہ داری خبر عام ہوچکی

ماں کی ردا تو دن ہوئے نیلام ہوچکی

اس کے پاؤں میں ایسی رسموں اور قید کی زنجیریں ہیں جنھیں کاٹا نہیں جاسکتا توڑا نہیں جاسکتا:

پا بہ گل سب ہیں ، رہائی کی کرے تدبیر کون؟

دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون؟

میرا سر حاضر ہے لیکن میرا منصف دیکھ لے

کر  رہا  ہے  میری  فرد ِجرم کو تحریر کون

        پروین شاکر عورت کے جائز مقام کی بات کرتی ہے اور اسے ایک ایسے انسان کے روپ میں پیش کرتی ہے جو کہ ایک جیتا جاگتا انسان ہے جس کے اپنے خواب ہیں خواہشات ہیں۔بقول قرۃ العین طارق

            ’’پروین کے کلام کا اہم وصف اس کا وہ نسائی شعور ہے جو عورت کی انا، توقیر، وقعت نزاکت اور مظلومیت کو مختلف زاویوں سے نمایاں کرتا ہے۔ اس کا یہ احساس اپنی ذات کی غمناکی کے رد عمل کے طور پر ظاہر ہوا۔(۵)

    پروین شاکر ایک شاعرہ ہے جس کا مشاہدہ اور تجربہ دوسروں کی نسبت گہرا ہے۔اس نے اپنی زندگی میں جو کچھ محسوس کیا، جو اسے زندگی میں لطیف اور تلخ تجربے ہوئے انھیں شعری پیکر میں ڈھالتی چلی گئی۔

            ’’پروین نے نسائیت کو جس شدت پسندی فنی التزام اور سچائی کے ساتھ بیان کیا ہے اس کی مثال شاعرات میں کال کال ہی نظر آتی ہے۔ شعور ذات کے آئینے میں وہ تمام احساسات عیاں کردیے جو ایک عورت کی تکمیل و تخلیق کے اہم جز ہیں ۔۔جوانی کی معصوم آرزوؤں کا اظہار ہو یا بیٹی اور ماں کے خوبصورت جذبوں کی سرشاری ، سچائی، محبت اور انکشاف کی خوشبو ہرسو بکھری محسوس ہوتی ہے۔‘‘(۶)

         پروین شاکر کی شاعری میں ماں کی ممتا اور عورت کی فطری محبت کا دلکش انداز میںاظہار ایک ایسی نسائی شعری روایت کو جنم دیتا ہے جس میں پیار ہی پیار ہے۔

اس کی شاعری میں عورت کا غم ایک کائناتی غم کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔

پیراہنِ غم سیا ہے کس نے

خوابوں کو کفن دیا ہے کس نے

جب گھر میں رکھی ہوئی ہو میت

پھر جشن بپا کیا ہے کس نے

    پروین شاکر بلا شبہ اردو نسائی شاعری میں ایک توانا آواز بن کر ابھری جس کی بازگشت ابھی تک شاعری کے ایوانوں میں گونج بن کر سنائی دے رہی ہے۔

پروین شاکر کی غزلوں میں بھی جدید غزل کا رچاؤ محسوس کیا جاسکتا ہے:

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی

وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

         اسلوب اور موضوع کے حوالے سے اردو نظم میں کئی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ان دنوں زیادہ تر نظم میں غزل کو اسلوب حاوی رہا مگر ستر کی دہائی کے بعد نظم نے غزل کے اندز بیان سے علیحدگی اختیار کرلی۔

             ۱۹۷۰ء کے بعد اردو نظم میں جہاں ایک نیا موضوعاتی انداز ملتا ہے وہاں نئی علامتوں اور رمزوکنایہ نے بھی اردو نظم کو ایک نیا پن عطا کیا۔

         پروین شاکر کی شاعری میں جہاں تانیثیت کی جھلک ہے وہاں اپنے دور کا کرب اور ذات کا دکھ بھی شامل ہے۔ پروین شاکر اردو شاعرات میں ایک ممتازمقام حاصل کیا،ان کی شاعری کو بہت شہرت ملی۔

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا

روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی

(پروین شاکر)

            اردو شاعری میں پروین شاکر ایک خوشبو کے جھونکے کی آئی اور غزل کی فضا کو مہکا کر چلی گئی۔’خوشبو‘ ان کا سب سے زیادہ مقبول شعری مجموعہ ہے۔ ان کی کلیات ’’ماہ تمام ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔

پیڑ کی سانسوں میں چڑیا کا بدن کھنچتا گیا

نبض رکتی گئی خواہش کی رگیں کھلتی گئیں 

(پروین شاکر)

            اردو شاعری کی تاریخ میں پروین شاکر ایسی شاعرہ ہیں جن کی شاعری میں انسانی اور کاص طور پر نسائی جذبات کی پیشکش میں ہمیں بیباکی نظر آتی ہے اور انھوں نے اپنے جذبات کی جس انداز میںترجمانی کی ہے وہ حقیقی اور دلیرانہ ہے۔پروین شاکر کے یہاں عورت کی محبت کا خالص روپ نظر آتا ہے جو ایک تصور محض  سے بڑھ کر اپنی شدت کے ساتھ جلوہ فرمائی کرتا ہے۔مگر وہ جس انداز میں عورت کی اس شدید اور حقیقی محبت کو نظر انداز کرنے کے المیے کو بیان کرتی ہے وہ ہماری شعری روایت میں ایک نیا زاویہ پیش کرتا ہے۔وہ شاعروں کی جانب سے عورت پر عائد کردہ بے وفائی اور نظر انداز کرنے کی شکایات اور الزامات کی تردید کرتی ہے۔

دریچہ گل سے کے عنوان سے پروین شاکر لکھتی ہیں:

            پھولوں کی پنکھڑیاں چنتے چنتے ،آئینہ در آئینہ خود کو کھوجتی ہوئی یہ لڑکی۔۔۔شہر کی اس سنسان گلی تک آپنہچی ہے کہ مڑ کر دیکھتی تو پیچھے دور دور تک کرچیاں بکھری ہوئی ہیں ۔۔۔۔ایسا نہیں ہے کہ اس نے اپنے عکس کو جوڑنے کی سعی نہیں کی۔۔۔کی۔۔۔پر اس کھیل میں کبھی تصویر دھندلا گئی اور کبھی انگلیاں لہو لہان ہوگئیں ’’خوشبو‘‘ اسی سفر کی کہانی ہے۔(۷)

پروین شاکر کی شاعری ایک درد بھری چیخ ہے جو سماجی کرب سہتے سہتے بے ساختہ بلند ہوئی ہے۔مشتاق احمد لکھتے ہیں:

            پروین شاکر کی شاعری میں صنف نازک کی بے چارگی اور بے بسی کا ایسا درد بھرا ہوا ہے جو اس ہرنی کے انداز سے بھرا ہوا ہوتا ہے جو چاروں طرف سے شکاریوں سے گھِر چکی اور بت چارگی اور بے بسی سے نتھنے کو رگڑ رہی ہو۔چونکہ غزالہ کے معنی ہرنی ہوتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری میں اس صنف سخن کوغزل کہا جانے لگا۔‘‘(۸)

وہ محبت میں بھی چاہنے کے ساتھ ساتھ چاہے جانے کو بھی  پسند کرتی ہے۔

میں کیوں اس کو فون کروں

اس کے بھی علم میں ہوگا

کل شب موسم کی پہلی 

بارش تھی

پروین شاکر نے اپنی زاتی دکھ کو تمام عورتوں کا سنائی دکھ بنا کر پیش کیا۔ بقول ڈاکٹر محمد تنویر :

            ’’پروین اپنی شاعری میں اس عورت کی نمائندگی کر رہی ہیں جو مرد کے ساتھ برابری کے رشتے کی خواہاں ہے خواہ وہ رشتہ جسم وجان کا ہو، محبت ونفرت کا ہو یا پھر کسی بھی نوعیت کا ہو۔یہ وہ عورت ہے جو احساسِ کمتری کا شکار ہونا نہیں چاہتی اور نہ مرد کے مقابلے میں برتری کا جذبہ رکھتی ہے ۔‘‘(۹)

وہ اپنے دکھ بانٹنا چاہتی ہین بلکہ ایک ایسا ساتھی انھین درکار ہے جو ان سے انسانی جذبوں کا اشتراک کرسکے۔

تجھے تو علم تھا زنجیر کا میری 

جو پیروں میں بھی ہے 

اور روح پر بھی

میں اپنے بخت کی قیدی ہوں

میری زندگی میں

نرم آوازوں کے جگنو کم چمکتے ہیں

فصیل شہر غم پر خوش صدا طائر

کہاں آ کر ٹھہرتے ہیں

تری آواز کا ریشم میں کیسے کاٹ سکتی تھی

مرے بس میں اگر ہوتا

تو ساری عمر

اس ریشم سے اپنے خواب بنتی

اور اس رم جھم کے اندر بھیگتی رہتی

تجھے تو میرے دکھ معلوم تھے جاناں

یہ کس لہجے میں تو رخصت ہوا ہے (پروین شاکر،مجموعہ،کف آئینہ،ص۴۶)

پروین شاکر ہر اس جذبے کی مذمت کرتی ہین جو استحصال اور جبر کا نمائندہ ہے۔ان کی شاعری میں عصری دکھ بھی ملتا ہے:

عکس گلِ تر جلا ہوا تھا

خوابوں کا نگر جلا ہوا تھا

یا دستِ دعا نہ اٹھ سکا تھا

یا اس کا اثر جلا ہوا تھا

یا نوچ لیے گئے تھے پتے

یا سارا شجر جلا ہوا تھا

تہہِ کانۂ جاں میں تجھ کو رکھتی

لیکن مرا گھر جلا ہوا تھا

پرواز کا اتنا ڈر قفس میں

ٹوٹا ہوا پر جلا ہوا تھا

منزل تھی غبارِ راہ میں گم

اور رختِ سفر جلا ہوا تھا (۱۰)

ان کی جذباتی وابستگی ان کی زندگی کے ارتقائی ا ور تشکیلی مدارج پر اثر انداز ہوتی ہے۔

ہم سے فروغ خاک نہ زیبائی آپ کی 

کائی کی طرح تہمتِ پوشاک ہوگئے

ماتم کی فضا ہے شہرِ دل میں

مجھ میں کوئی شخص مرگیا ہے

         پروین شاکر اول وآخر ایک عورت ہے اور ان کی شاعری میں بھی جس عورت کا ذکر ہوا ہے وہ ایک جیتی جاگتی اور اپنے تعصبات اور نظریات رکھنے والی عورت ہے۔جسے اس سماج میں بطور عورت اپنا حق چاہئے۔پروین شاکر کبھی خودی کا اظہار کرتی ہیں اور کبھی خودی کو بھی اپنی محبت پہ قربان کرد یتی ہیں:

            پروین کے یہاں انااور خودداری کا احساس نمایاں ہے ۔وہ اپنے مد مقابل کے سامنے خود سپردگی کے عمل سے بھی گزر جاتی ہے لیکن اس کا احساس زات جب اسے شعور کی بلندیوں پر پہنچاتا ہے تو پھر اسی پروین کے شعروں میں انا کا رنگ گہرا دکھائی دیتا ہے ۔‘‘(۱۱)

میں تو اڑنا بھول جاؤں زندگی بھر کے لیے

بھر گیا ہے دل مگر مجھ سے مرے صیاد کا (۱۲)

نظم’’جدائی کی پہلی رات کے تین مصرعے ملاحظہ کیجئے:

میرا بستر ہی نہیں 

دل بھی بہت خالی ہے

اک خلا ہے مری روح میں،دہشت کی طرح اترا ہے (انکار،ص۴۶)

وہ چاہت میں کھلنے کے عمل کو جز وقتی عمل قرار نہیں دیتی بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے عورت کے لیے واپسی ناممکن ہوجاتی ہے۔

حسن کو سمجھنے کے لیے عمر چاہئے جاناں

دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں (۱۳)

            پروین شاکر کی شاعری میں نسائی جذبات اور احساسات ونظریات بڑے ہمہ گیر قسم کے پائے جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنی سوچ کو سرسری انداز مین پیش کرنے کے بجائے بڑے جامع اور متنوع جہات میں پیش کیا ہے۔ان کی شاعری مینخوبصورت تشبیہاتا ور استعارات کا ایک جہان آباد ہے۔ جن سے کام لے کر وہ اپنی شاعری کو نئے معنوی مفاہیم پہناتی ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حوالہ جات

۱۔فلیپ از،کشور ناہید،مشمولہ صد برگ، لاہور، غالب پبلشرز، ۱۹۸۱ء ،ص،اندرون سر ورق

۲۔خاطر غزنوی،ایک پوری عورت(پروین شاکر) مشمولہ ادبیات ، اسلام آباد، شمارہ ۵۶، ۲۰۰۱ء ،ص۱۳۵

۳۔ر وبینہ رفیق‘ڈاکٹر ’’پروین شاکر کی شاعری کی نسائی اور سماجی جہتیں‘‘تخلیقی ادب، شمارہ ۱۰، ص۱۴۲

۴۔خاطر غزنوی،ایک پوری عورت(پروین شاکر) مشمولہ ادبیات ، اسلام آباد، شمارہ ۵۶، ۲۰۰۱ء،ص۱۳۷

۵۔انکشاف ذات کی شاعرہ پروین شاکر مشمولہ سیپ، کراچی،شمارہ ۸۱،اگست ستمبر ۲۰۱۲ء ، ص ۸ ۱ ۳

۶۔انکشاف ذات کی شاعرہ پروین شاکر مشمولہ سیپ، کراچی،شمارہ ۸۱،اگست ستمبر ۲۰۱۲ء ، ص ۱۹۸ ۳

۷۔پروین شاکر، ماہ تمام، دہلی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، ۱۹۹۵ء،ص۱۷

۸۔مشتاق احمد‘قاضی،اردو شاعری میر سے پروین شاکر تک،مکتبہ جامعہ ،۲۰۰۲ء

۹۔محمد تنویر‘ڈاکٹر، پروین شاکر کی شاعری ایک تنقیدی جائزہ، دہلی، ایجوکیشنل ہاؤس، ۲۰۱۴ء،ص۵۶،۵۷

۱۰۔نظم ۔۔کراچی۔۔۔۸۹ کی آخری شام،انکار،ص۱۴۵، ۱۴۶

۱۱۔روبینہ شبنم‘ڈاکٹر،اردو غزل کی ماہِ تمام پروین شاکر،دہلی، ماڈرن پبلشنگ ہاؤس،ص۱۱۴

۱۲۔پروین شاکر، انکار،اسلام آباد،مراد پبلیکیشنز، ۱۹۹۰ء،ص۱۵

۱۳۔ایجوکیشنل بک ہاؤس، ۱۹۹۵ء،ماہ تمام، ۳۴۱


(بشکریہ  :  خواجہ کوژر حیات صاحبہ، اورنگ آباد )

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.