Type Here to Get Search Results !

پہنچی وہاں پہ خاک

از :  جبیں نازاں





ڈاکٹر !یہ بند مٹھی کھولتے ہی نہیں ، جب  جبراً  کھولنے کی کوشش کی جاتی ہے   ایک ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں!

چیخنے چلانے لگتے ہیں ، بچوں کی مانند پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں !

پہلے ایسے نہیں تھے ڈاکٹر پچھلے تین  مہینے سے اس کیفیت میں مبتلا ہیں ۔۔ "

"پچھلے تین مہینے ایسا کیا ہوا؟؟ کوئی سانحہ واقع ہوا کہ شدت غم کی وجہ سے انھوں نے مٹھی بند کرلی؟ ؟ آپ نے غور کیا  یاد کریں ؟"

ماہر نفسیات نے دریافت کیا 

پچھلے تین مہینے یعنی کہ 15 جنوری کو ان کے والد صاحب کا  گاؤں میں انتقال ہوا تھا، تیس سال سے زائد عرصہ  بیتا یہ اپنے   والد صاحب سے نہیں ملے تھے ، چونکہ ہماری شادی والدین کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی ، ان کے والد نے انھیں اپنے دل  اپنے  گھر میں جگہ نہ دے سکے-

ماں چپکے چوری بیٹے سے مل لیا کرتی تھیں جس کا غم انھیں تھا ہی لیکن والد کے جنازے کو کاندھا نہ دینے کا غم نے ان کی مٹھی بند کردی !    

کیا کروں ؟؟ میری سمجھ کچھ نہیں آتا ۔۔سائیکٹرسیٹ کے پاس لے گئی ذرا بھی  افاقہ نہیں ہوا۔۔نیند کی دوا دی اس نے جب تک دوا کا اثر رہتا ہے نشے میں رہتے ہیں نشہ اتر جانے کے بعد پھر وہی صورت حال ۔۔

'لاؤ! انھیں میرے پاس ! میں ان سے بات کرتا ہوں ' 

ماہر نفسیات  رمن دیسائی نے کہا! 

خاتون اٹھیں  باہر نکلیں !  مریض کمپاونڈ میں آئیں  دیکھا مریضوں کی قطار میں دوسرے نمبر پر  شوہر  اصغر سر جھکا ئے چشم تر  بائیں ہاتھ کی جھولتی ہوئی آستین سے پوچھ رہے ہیں بغل میں پریشا ن اور بے بس سی بڑی بیٹی انیقہ کھڑی ہے ماں نے انگلی کے اشارے سے بیٹی کو بلایا کہ وہ بابا کو لے کر آئے  انیقہ بابا کا ہاتھ تھامے ہوئے بڑھی  ماں کے قریب آکر کھڑی ہوئی ، ماں نے ماہر نفسیات کے بند روم پر دستک دی ا ملازم نے دروازہ کھولا تینوں اندر داخل ہوئے ۔رمن دیسائی نے کہا آپ دونوں باہر جائیں! میں ان سے تنہائی میں بات کروں گا !

وہ دونوں باہر آگئیں دیسائی نے اس کی بند مٹھی دیکھتے ہوئے نہایت پر سوز لہجہ میں کراہتے ہوئے کہا-

"ننھے منے  بچے تیری مٹھی میں کیا ہے؟؟"

اس نے ایک دم سے سر اوپر اٹھا یا اور پھوٹ پڑا !

ڈیسائی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا -  مسٹر اصغر!ہماری مٹھی  میں دنیا نہیں بستی ۔موبائل کمپنیوں کے تیار کردہ  نعرے بہلاوے ہیں معصوم صارفین کے لیے  ؟؟ کرلو دنیا مٹھی میں !دراصل !اس نے ہمیں اپنی مٹھی میں جکڑ لیا ہے! "

اصغر نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔پھر ہلکے سے پھسپھسا یا!

ننھے منے بچے تیری مٹھی میں کیا ہے؟لیکن مٹھی میں نہیں تقدیر ہماری ۔۔!

'تقدیر ہماری' ذرا کھینچ کر ہذیانی مسکراہٹ کے درمیان ادا کیا 

 اور  اپنا سر پکڑ لیا _ ڈیسائی اپنی نشست سے اٹھا ،  ملازم کو نہ جانے کیا اشارہ کیا کوڈ ورڈ میں ملازم کو کچھ سمجھایا اور پھر اندر دروازے سے نہ جانے کہا چلا گیا!

معائنہ کمرہ کے باہر ریسپشن کاؤنٹر کے قریب قطار میں لگی کرسی پر انیقہ اور اس کی ماں بے چین سی بیٹھی انتظار کی اذیت سے گزر رہی تھیں  وقت گزاری کے لیے   موبائل پر  چیٹنگ  میں خود کو مصروف رکھے ہوئی تھیں ، باوجود اس کے  اوب سی گئیں ۔ایک گھنٹے سے زیادہ وقت ہوچکا تھا اب تک بابا روم سے باہر نہیں نکلے ۔۔انیقہ نے موبائل میں  وقت دیکھتے ہوئے سوچا

ڈیسائی واپس لوٹ آیا آتے ہی   نفسیاتی اصغر سے کہا مٹھی بند کرلینے سے تمھارے غم کا مداوا نہیں ہوسکتا!  مؤثر عملی  اقدام کی ضرورت ہے ؟ اور یہ از  خود تمھیں کرنا ہے !"

اصغر نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔تب ڈیسائی  نے اپنے ملازم کو ہدایت دی کہ وہ ان کے گارجین مطلب کہ ان کی فیملی کو اندر بلائے!

ملازم نے حکم کی تعمیل کی انیقہ اور ماں دونوں اندر آئیں  مریض اصغر کو با ہر  لایا گیا ۔

دیسائی نے اصغر کی بیوی سے  کہا 

"کہ  یہ جنازہ میں شرکت کر لیتے تو اس کیفیت میں مبتلا نہیں ہوتے"

"انھوں نے شرکت کی تھی ڈیسائی صاحب!ان کی ماں نے انتظام کیا تھا زوم ایپلی کیشن کے توسط سے  

انھوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح گاؤں پہنچ جائیں ! لاک ڈاؤن کی وجہ ممکن نہ ہوسکا " 

"افف افف ۔۔۔۔۔۔"

جوں ہی میرے سسر کے جسد خاکی پر پہلی مٹی ان کے داماد نے ڈالی یہ خود پر قابو نہ رکھ سکے دھاڑیں مار کر رونے لگے ، جاناسب کوہے  مجھے غم اپنی محرومی کا ہے  

کتنا بد نصیب ہے اصغر ایک مشت مٹی باپ کے وجود پر نہ ڈال سکا ! مٹی جسے دنیا قرض کہتی ہے ، میں اسے  فرض سمجھتا ہوں  یہ فرض  ادا  کس طرح کروں ؟؟  زبردست انتقام لیا ابو نے!کہا تھا میں تیری ایک مشت مٹی کا محتاج نہیں ، خبردار میرے جنازے کے پاس بھی مت پھٹکنا !

یہ کہتے ہوئے انھوں نے مٹھی بند کرلی !اور آج تک مٹھی بند ہے"

اصغر کی بیوی کی زبانی مٹھی بند کرلینے کا پس منظر سن کر ڈیسائی نے کہا  

" آپ اگر چاہتی ہیں کہ وہ سابقہ حالت میں واپس لوٹ آئیں مطلب کہ نارمل ہوجائیں تو آپ کو ان کی طرف سے برتی جانے والی ہر  زیادتیاں برداشت کرنا ہوگی!

"بیوی نے کہا تین مہینے سے برداشت کررہی ہوں، چند روز اور سہی ۔۔۔"

ڈیسائی نے کہا آپ کو نہایت خوش اسلوبی  کے ساتھ صبروتحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا !وہ جو کچھ کریں گے اس کا ذمے دار آپ خود کو ٹھہرایں گی! اوکے "

بیوی  نے ہامی بھر لی ' او کے '

اور پھر دونوں کمرے سے نکل گئیں،

یہ تینوں گھر واپس  آئے ، گھر پہنچتے ہی بیوی  شوہر  اصغر کو روم میں لے گئی  اے سی آن کیا  مٹکے سے پانی  شیشے کے گلاس میں انڈیلا  روح افزا کی بوتل ریفریجٹر سے نکالی دو بڑے چمچ روح افزا  پانی کے گلاس میں حلول کیا ۔۔اور پھر اصغر کو پیش کیا ۔چونکہ اصغر جب سے ذیابیطس کے شکار ہوئے تھے  بغیرشکر کے شربت پیا کرتے ہیں ۔۔۔انیقہ اور ماں نے ایک ساتھ مل کر کولڈ ڈرنک اسپارائٹ پی ۔۔۔تھوڑی دیر تینوں ایک ساتھ ایک ہی  کمرے  میں  رہے انیقہ ، اور بیوی تکان کی وجہ سے  فرش پر بچھی ہوئی سبز قالین پر یوں  ہی غریب و مسکین کی صورت دراز ہوگئیں اصغر بیڈ پر بیٹھے رہے دائیں  مٹھی بدستور بند ۔۔۔  

اس رات سے اصغر نے ایک نیا مشغلہ شروع کیا بیوی کے سونے کا انتظار کرتے رہے جب بیوی نیند کی آغوش میں چلی جاتی وہ خاموشی سے اس کے بغل سے دھیرے دھیرے اٹھتے تاکہ بیوی جاگ نہ جائے ۔۔پاؤں دباتے ہوئے  ہولے ہولے چل کر بغل کے روم میں جاتے اندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے  کپڑے کے تھیلے کے اندر بند مٹھی ڈالتے ۔۔اپنی مٹھی کھولتے اور پھر مٹھی بند کرلیتے۔۔ویسے ہی دبے قدموں سے کمرے میں واپس آتے بیوی کے وجود پر  بند مٹھی کھول دیتے ۔بند مٹھی کی مٹی  بیوی کے وجود پر بکھر جاتی ۔  پھر مٹھی بند کرلیتے ۔اور بیوی کے بغل  میں  چپ چاپ لیٹ جاتے۔

صبح ہوئی بیوی نے اپنے وجود پر پڑی ہوئی مٹی  دیکھی مٹی  جھاڑی  آنکھوں میں تیرتے ہوئے آنسو پی گئی اور خاموشی سے کمرے سے نکل گئی ۔۔

اصغر کا یہ معمول ہوگیا بیوی کے سونے کے بعد ہر شب وہ یہ عمل دہراتے لیکن ایک فرق کے ساتھ وہ یہ کہ پہلی رات اس نے ایک مٹھی اس کے وجود پر کھولی تو دوسری رات دومٹھی اس طرح مٹھیوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی ، پھر ایک  رات   ایسی آئی کہ بیوی کا وجود  مٹی  کی ڈھیر سے  ڈھک گیا  بیوی اس بوجھ کو برداشت نہ کرسکی جہان فانی کو خیر باد کہا۔۔

جب انیقہ نے دیکھا ماں اس دنیا میں نہیں رہی تو بابا اصغر کا گریباں پکڑ کر پوچھا ۔۔آپ کا انتقام پورا ہوگیا با با ؟؟

لیکن ماں اپنا انتقام کس سے لے؟؟ تنہا ماں ذمے دار نہیں تھی  آپ بھی برابر کے شریک تھے اس عمل کے جسے گناہ تصور کرتے رہے  ہیں ، یہ گناہ نہیں تھا بابا! ؟

اصغر خاموش روتی بلکتی بیٹی کو دیکھ کر افسردہ ہوئے لیکن لب کشا نہ کیا !

  دل ہی دل میں خود سے  کہا جس عورت کے لیے باپ اپنے لخت جگر کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ سکتا ہے وہ عورت کیسی ہوگی میں جانتا ہوں !تو بیٹی ہے ناں؟ ماں کی محبت میں آندھی ہوچکی ہے ۔۔جس طرح میں اس کی محبت میں اندھا ہوچکا تھا  اپنے والدین  اپنے گھر کو تیاگ دیا تھا، اسی طرح تو بھی مجھے گنوانا چاہتی ہے تو گنوادے !ویسے بھی اب مجھے کسی کی حاجت ہے نہ ضرورت۔کسی پہاڑ پر ڈیرہ ڈال دوں گا!

پھر  انیقہ نے سبھوں کو خبر دی  کہ میری ماں اپنے گناہ کی سزا پاچکیں ، اور اس دنیا کو خیرباد کہا ۔۔  

قرب وجوار سے رشتے دار وغیرہ  آنا شروع ہوئے ۔۔اور پھر انیقہ کے صبر کاباندھ ٹوٹ گیا ۔۔ اصغر کو بیٹی کی حالت پر رونا آیا وہ بند کمرے میں سب سے چھپ کر روتے رہے ۔۔دیر شام تجہیز کے بعد تدفین کے لیے جنازہ لے جایا گیا ۔۔لیکن اصغر بند کمرے سے باہر  نہ نکلے 

آپس میں لوگ چہ مگوئیاں کرتے رہے ۔۔دو چار لوگوں نے ان کے در پر دستک دی لیکن اصغر اس طرح خاموش کہ جیسے کمرے کے اندر موجود نہ ہوں !

دوسرے دن بھی اصغر کا دروازہ نہ کھلا انیقہ جو اب تک بابا کے رویے سے بد ظن اور سخت ناراض تھی ۔تشویش میں مبتلا ہوئی ۔۔دروازہ پر دستک دی 

"بابا! اب مم گھر میں نہیں ہیں !وہ آپ سے ناراض ہوکر ہمیشہ کے لیے چلی گئیں ۔اب آپ باہر آئیں ! یہ گھر آپ کا ہے ! باہر نکلیں بابا! " 

بابا کو دروازہ نہیں کھولنا تھا  انھوں نے  دروازہ نہیں کھولا، پھر انیقہ نے اپنی خالہ کی مدد لی 

سب نے مشورہ کیا اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ دروازہ توڑا جائے !بڑھی کو بلایا گیا دروازہ توڑا گیا اصغر بیڈ پر چت لیٹے تھے ان کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا ۔البم سے ۔۔البم ہٹایا گیا البم میں نوجوان جوڑے کی تصویر اس جوڑے کی  گود میں ننھا ہمکتا ہنستا ہوا خوبصورت سا بچہ تھا ۔۔انیقہ کی طرف اس کے ما ما نے تصویر بڑھائی ۔۔۔انیقہ نے غور سے دیکھا ۔۔۔۔

یہ تو ددا، دادو ، بابا کو گود لیے بیٹھے ہیں ،  تصویر پرے رکھتے ہوئے اس نے بابا کے چہرے پر نظر ڈالی  بابا مسکرا رہے تھے ۔۔ان کی مٹھی کھلی ہوئی تھی 

 انیقہ کی آنکھ چھلک پڑی بابا کے  سینے سے لگ کر  رو پڑی ۔

انیقہ روتے ہوئے سوچنے لگی کہ مردہ جسم میں کشش ثقل ہوتی ہے ؟  

یا  موت  کشش ٹقل رکھتی ہے؟؟ جو ایک دوسرے کو اپنی طرف  کھینچتی چلی جارہی ہے ، دادو کی موت ، دادو کے بعد مما کا دنیا سے چلے جانا ، مما کی قبر ابھی گیلی تھی کہ بابا کا خیر باد کہنا  بابا کے بعد۔۔۔؟؟  بابا کے بعد میں !

اس نے اپنے متعلق سوچا اور یکایک اس کے دل میں شدید درد اٹھا 

موت  نہ جا نے کیسی کشش رکھتی ہے جو زندگی کو اپنی آغوش میں کھینچ لیتی ہے ، انسان نہ چاہتے ہوئے بھی بے بس  رہ جاتا ہے   

اور پھر  انیقہ  بابا کے سینے سے لگی  تو اٹھ نہ سکی  !


ختم شد

جبیں نازاں         نئی دہلی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.