Type Here to Get Search Results !

معصوم محبت ( افسانہ )





از : عظمیٰ یزدانی



محبت بھی کتنی عجیب چیز ہے۔ کب۔۔؟ کہاں۔۔؟ اور کس سے ہو جائے پتہ نہیں، یہ وہ پھول ہوتے ہیں جو کبھی بھی کسی بھی موسم میں کھلتے ہیں، ان پھولوں کا کوئی موسم کہاں ہوتا ہے۔۔؟ 

 شمیم اپنے والدین کی سب سے چھوٹی اور چہیتی اولاد ہے۔

اور ہو بھی کیوں نہ، پانچ بہنوں کے بعد جو ان کی پیدائش ہوئی ہے۔ سب کے لاڈ- دلار میں رہتا، نہ کھانے کی فکر نہ مستقبل کی۔

 اسکول سے بھی آئے دن شکایتیں آتی رہتی تھیں، روزانہ کلاس میں سوتا ہوا جو  پکڑا جاتا تھا۔ مگر آج شمیم کا مزاج کچھ بدلہ بدلہ سا لگ رہا تھا ،آج اس کی اسکول میں شہر سے ایک نئی ٹیچر آئی ہوئی تھی۔ جس کا نام گل بانو تھا۔  جو انہیں انگلش کی تعلیم دینے والی تھی۔ ویسے تو شمیم  دسویں کلاس کا طالب علم تھا، ابھی جوانی کی دہلیز پر ٹھیک  طرح سے قدم بھی نہ رکھا تھا کہ اس کے جذبات ٹیچر گل بانو کو دیکھ کر مچلنے لگے۔ روزآنہ صبح جلدی اٹھ کر اسکول کی تیاری میں لگ جاتا ہے ، جسے روز  نہ نہانے کی وجہ سے طعنے دیے جاتے تھے وہ اب خود ہی نہا دھو کر تیار ہوجاتا۔ جسم پر عطر لگاتا ، جو اسکے والد سعودی عرب سے لائے تھے، جسکی خوشبو پورے گھر میں پھیل جاتی۔ جب بھی اسکول جاتا مس بانو کی کلاس کا انتظار کرتا، جوں ہی مس بانو کلاس میں داخل ہوتی، اپنے ہی خیالوں میں ایک نئی دنیا بسا لیتا، اور  بسائے بھی کیوں نہ۔۔! مس بانو تھی ہی اتنی حسین کہ اسٹاف کا ہر شخص ان پر عاشق تھا۔ بوڑھا ہو یا جوان ، ہر کسی کا حال بے حال تھا۔ مس بانو شمیم سے کچھ بھی پوچھتی، اس کے جواب میں شمیم صرف ،"یس" "يس" کہتا ، مس بانو کو اس کی یہ بدمعاشیاں کافی معصوم اور پیاری لگتی۔

 مس بانو کلاس میں کچھ  سامان بھول جاتی تو اُن کے گھر پہنچا آتا۔ اب گھر میں بھی اسکول سے شکایتیں آنا مکمل طور پر بند ہو چکی تھی۔ اب شمیم کو اس دن کا انتظار تھا، جسے سب محبت کا دن یعنی "ویلن ٹائن ڈے" کہتے ہے۔ وہ طے کر چکا تھا کہ اسی دن وہ اپنی محبت کا اظہار کرے گا۔ رفتہ رفتہ یونہی دن گزرتے گئے ، شمیم اسی  طرح مس بانو کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا رہا اور آخر کار وہ دن آ ہی گیا۔

شمیم اسکول کے پارکنگ ایریا میں جہاں مس بانو کی کار ٹھہرتی ہے، ہاتھوں  میں گلاب لیے مس بانو کا منتظر تھا۔ بار بار اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھتا،آنے جانے والے اس کے ساتھی اسے ستاتے پر وہ خوشی سے جھوم اٹھتا۔

اچانک مس بانو کی کار پارکنگ ایریا میں آکر رکتی ہے جوں ہی شمیم کار کے قریب جانے سوچتا ہے، اچانک ایک خوبصورت نوجوان جس کے جسم پر مخملی لباس اور کلائی پر قیمتی گھڑی اور آنکھوں پر چشمہ لگائے کار سے باہر نمودار ہوا اور کار کا دروازہ کھول کر  مس بانو کو  باہر آنے کا اشارہ کرنے لگا ، مس بانو کار سے باہر آکر اس نوجوان کا ہاتھ تھامے آگے بڑھتی ہے، شمیم سوچنے لگا شاید مس بانو کا بھائی ہوگا۔

سبھی بچے مس بانو کو گوڈ مارننگ مس ، گوڈ مارننگ مس کہہ کر وہاں سے گزر جاتے لیکن شمیم نے یہ طے کیا تھا کہ آج وہ اُسے گوڈ مارننگ مس نہیں، بلکہ "ہیپی ویلنٹائن ڈے"۔۔۔! 

"بانو جی" کہہ کر مخاطب کرے گا اور اپنی دلی خواہشات کا اظہار مس بانو کے سامنے کر دےگا، جوں ہی مس بانو کی نظر شمیم پر پڑی، وہ شمیم سے مخاطب ہو کر کہنے لگی، " ارے شمیم"....! تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔؟ شمیم کچھ کہنے ہی والا ہوتا ہے کہ ساتھ میں آیا نوجوان مس بانو سے بولا: " اچھا....! " گُل... " یہ وہی شمیم ہے نہ جس کے بارے میں تم اکثر بتاتی ہو...؟

شمیم خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا کہ مس بانو اُسکی باتیں کرتی ہے۔ نوجوان نے شمیم سے کہا: " بھئی ۔۔! ہماری بیگم تو آپکی شرارتوں کے قصے سنا کر ہمیں خوب ہنساتی ہے"، بڑے بدمعاش ہو آپ" ۔۔۔! کہہ کر شمیم کے گال کھینچنے لگتا ہے۔ شمیم اپنے ہی خیالوں میں کھویا رہتا اور مس بانو اور انکے شوہر ہاتھ تھامے شمیم کے پاس سے گزر جاتے ہیں ۔ مگر اب شمیم کو کچھ بھی ہوش کہاں۔۔؟ اسے تو نوجوان کے لب مبارک سے نکلا ہوا ایک ہی لفظ بارِ ہاں پریشان کیے جا رہا تھا۔۔ بیگم۔۔۔!!!  بیگم۔۔۔!!! بیگم۔۔۔!۔۔۔!

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.