Type Here to Get Search Results !

باپ کا سایہ مجھے جبرائیل کا پر لگتا تھا


محمد مصعب بارہ بنکوی

اُف آج 22 جنوری ہے , گزشتہ برس آج ہی کے دن میری زندگی کا سب سے تاریک دن تھا 

میرے ابو جان 

جنکی یادوں کے انمنٹ نقوش بقیہ زیندگی کے تمام لمحات پر ثبت ہو کر رہ گئے ہیں جنکی جدائی کی  ٹِیس آج تک محسوس ہو رہی ہے

میرے ابو میرے لئے سرمایۂ حیات تھے وہ ایک سایہ سدا بہار شجر کی طرح تھے جس پر کسی بھی موسم کی تیزی اثر نہیں کرتی تھی وہ ایک ایسی ہستی تھی جو خود کی پرواہ کئے بغیر ہر ایک کی پرواہ میں گھلتی رہتی تھی جسم کمزور تھا پر دل بہت بڑا تھا , کافی دنوں سے بیمار چل رہے تھے مگر ہمت و استقامت کے پیکر تھے  کبھی ہم لوگوں پر اپنی پریشانی عیاں نہیں ہونے دی جیسے ہی ہم لوگ کچھ پوچھتے فوراً بول اٹھتے کہتے الحمد للّٰه ٹھیک ہوں بس ذرا سی بات ہے انشاء اللّٰه ٹھیک ہو جاؤں گا میرے ابو جان عظیم تھے سب کے والدین عظیم ہوتے ہیں بس ذمہ داریوں کو نبھانے میں فرق ہوا کرتا ہے میرے ابو جان محبت و شفقت قربانیوں اور ذمہ داریوں کا بوجھ ہمیشہ اپنے کاندھوں پر اٹھاۓ رکھتے رشتوں کو بھی خوب نبھاتے  کردار و عمل انکی عظمت میں چار چاند لگاتے تھے بیمار ہوتے ہوۓ بھی چھوٹے بھائیوں کو اپنے پاس بٹھا کر پڑھاتے ہاتھ پکڑ کر لکھنا سکھاتے اور سمجھاتے رہے ,  ابو جان نے کبھی دن  کو دن اور رات کو رات نہیں سمجھا زںدگی سے لڑتے رہے اور ہم بھائی بہنوں کی صحیح پرورش کی فکر میں کڑھتے رہے سخت  بیماری کے دنوں میں بھی تکیہ سے ٹیک لگاۓ بیٹھے سرکاری کاغذات کو فِل کیا کرتے ہم لوگ کہتے ابو آرام کر لو جب طبیعت ٹھیک ہوگی تب کر لینا جواب ملتا ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا سرکار ہمیں تنخواہ کس کام کے دیتی ہے سرکاری نوکری تھی مال کمانے کے خوب مواقع تھے مگر پھر بھی ہمیشہ سے کوشش یہی رہی کہ گھر میں حرام کا ایک روپیہ بھی نہ آنے پاۓ  کھیتہ سراۓ محلہ پھاٹک بارہ بنکی میں ابو جان ایک ایسے بڑے زمیندار باپ کے اکلوتے بیٹے تھے جنکی (ہمارے دادا )کی صحبت بڑے بڑے ارب پتیوں اور کھرب پتیوں سے رہی پھر بھی دادا جان اور نہ ہی ابو جان کسی سے مرعوب ہوۓ اور نہ ہی کسی سے ایک روپیہ کا فائدہ حاصل کیا اور نہ ہی کبھی کسی کی دولت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا , ابو جان کے اندر کسی قسم کی کوئی اکڑ کا شائبہ تک نہ تھا وہ ہمیشہ سراپا عاجزی و انکساری کا پیکر بنے رہے ہر کسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے  میں نے کبھی ابو جان کو کسی سے تم اور تو سے بات کرتے ہوۓ نہیں دیکھا  والد محترم بڑے ہی صاحب کراد با عمل قناعت پسند تھے .

ہمیں پڑھاؤ نہ رشتوں کی کوئی اور کتاب

پڑھی ہے باپ کے چہرے کی جُھرِّیاں ہم نے

31 دسمبر 2021 کو ابو ریٹائر ہوۓ اتفاق سے اسکے اگلے دن بڑے بھائی کو باہر جانا تھا جسکی مناسبت سے گھر میں مہمان کافی آگئے تھے ابو سب سے ہنسی خوشی ملتے رہے اگلے دن بڑے بھائی کو ابو نے چہرے پر جھوٹی مسکان سجا کر اشکبار آنکھوں سے وداع کیا , اُف کیا منظر تھا کیا بڑے بھائی کو پتا تھا کہ یہ چہرہ مجھے اب کبھی دیکھنے کو نہ ملے گا ؟ یا یہ کہ ابو جان کو پتا تھا کہ میں اپنے اس لخت جگر کو آخری نگاہ دیکھ رہا ہوں ؟ یہ سب تو قدرت کے فیصلے ہیں جس سے کسی کو فرار نہیں اسکے ٹھیک 20 دن کے بعد ابو جان کی طبیعت رات کو کچھ زیادہ خراب ہوئی صبح جب امی کمرے سے نکلی تو انکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ہم لوگ گھبراۓ امی بس اتنا ہی کہہ پائی کہ تمہارے ابو کی طبیعت نہیں ٹھیک ہے  ہلکی ہلکی دھوپ نکلی ہوئی تھی ابو کو کمرے سے باہر لاکر دھوپ میں لٹایا گیا ماموں جان ڈاکٹر ہیں وہ آۓ گلوکوز وغیرہ لگایا خاندان کے لوگ آۓ حوصلہ دلایا طبیعت کچھ بہتر ہوئی ابو رات بھر نہیں سوۓ امی بھی ساتھ جگتی رہیں ابو سورہ یٰسین اور دیگر سورتیں جو یاد تھیں وہ پڑھتے رہے اور بیچ بیچ میں امی کو دیکھتے تھے اور کچھ بہت بات بھی کرتے امی کا نام لے کر کہتے ہم نے سبکو معاف کر دیا ہم اپنے اللّٰه سے بڑی سی جنت مانگتے ہیں فجر کی اذان ہوئی ہم ابو کے کمرے میں گئے اشارے سے مجھے فجر کی نماز کے لئے بھیج دیا اور امی سے کہا مجھے تیمم کروا دو فجر کی نماز اشارے سے ادا کی پھر امی سورہ یٰسین بلند آواز سے پڑھنے لگیں اور ابو وہی دہراتے رہے پھر ماموں جان آ گئے اور کہا اطمینان کے لئے اسپتال لے چلو فوراً ہم لوگوں نے تیاری شروع کی ہم دو بھائی اور امی پھوپھی خالہ اور ماموں ساتھ میں لکھنؤ گئے ادھر دادی کا کلیجہ پھٹا جا رہا تھا اکلوتے لخت جگر کی یہ حالت دیکھ کر ابو نے جاتے جاتے دادی کو تسلی بھی دیا کہ انشاء اللّٰه ٹھیک ہو کر آئیں گے پر مشئیت الٰہی کچھ اور ہی منظور تھا جمعہ کا  دن تھا صبح ہی اسپتال ہم لوگ پہونچ گئے تھے نماز جمعہ پڑھ کر جب ہم لوگ لوٹے تو ابو کی طبیعت اور بگڑ چکی تھی زبان پر صرف کلمہ جاری تھا آئی سی یو میں بھیجا گیا وہاں پہونچ کر بلکل سے ابو نے خاموشی اختیار کر لی یہ بظاہر بڑے خیر کی علامت تھی  اتنی دیر تک باری باری ہم میں سے کوئی نہ کوئی اندر جاتا رہا قرآن کریم میں ان اولادوں کو نعمت کہا گیا ہے جو ہر وقت والدین کے پاس رہیں 

بہرحال جمعہ بعد سے رات کے 12 بجے تک آئی سی یو میں رہے اور ہم باہر نکلے ہی تھے کہ ذرا سی پاؤں کی جنبش کے ساتھ ابو جان کی روح بلکل آسانی کے ساتھ پرواز کر گئی , ماموں کی زبان سے یہ جملہ سننا تھا کہ اب واپس چلو گویا کہ میرے سامنے کی دنیا ویران سی ہو گئی ہو جیسے کسی طوفان نے ہماری ہنستی کھیلتی زندگی کو اجاڑ کر رکھ دیا ہو ہر لمحہ ڈستا ہوا ہر گھڑی کاٹ کھاتی ہوئی محسوس ہوئی مگر یہ گھڑی تو امتحان کی تھی ہمارے صبر کے امتحان کی ہر نفس کو اس دنیا سے جانا ہے ,  ہم ہی اگر بے قابو ہو جاتے تو امی کو چھوٹی بہنوں کو کون سنبھالتا  رات کو قریب 3 بجے تک ہم لوگ گھر پہونچ گئے گھر میں اک کہرام سا مچا ہوا تھا پر سب نے بڑے ہی صبر و ضبط سے کام لیا خاص کر وہ بوڑھی ماں جسکا اکلوتا لال اس سے جدا ہو گیا تھا جسکی عمر رسیدہ خشک آنکھوں میں بہانے کے لئے آنسو بھی نہ تھے اور امی جان جن کا ہم راز ہمیشہ کے لئے ان سے رخصت ہو گیا تھا  اور ہماری چھوٹی بہنیں اور بھائی جن کے سر سے اِک سائبان اُٹھ گیا تھا اگلے روز 22 جنوری 2022 کو تدفین عمل میں آئی وہ باپ جو ہم کو کبھی نہلاتا تھا اسکو ہم دو بھائیوں نے مل کر آج نہلایا چہرا بلکل سے ہنستا ہوا تھا کڑاکے کی سردی تھی اور زوروں کی بارش تھی عین وقت پر بارش کچھ کم ہو گئی تھی پھر بھی اچھا خاصا مجمع جمع ہو گیا تھا کیا ہندو کیا مسلمان ہر ایک کی زبان پر بس یہی الفاظ تھے بہت ہی نیک اور سیدھے آدمی تھے اور بارش کا ہو جانا بھی ایک اچھی علامت ہے اور ایسا کہیں  پڑھا بھی ہے کہ جنازہ پر بارش کی بوندوں کا پڑنا مغفرت کی بشارت ہے لرزتے ہونٹوں کے ساتھ میں نے نماز جنازہ کی تکبیر کہی نماز ادا کی اور دنیا کی سب سے عظیم نعمت کو منوں مٹی کے نیچے دبا آۓ 

بہت سے احباب نے تعزیتی پیغام بھیجے بہت سے لوگوں نے ایصال ثواب کیا بہت سے لوگ بعد میں تعزیت کو آۓ اللّٰه سب کو جزاۓ خیر دے صحت اور عمر میں برکت دے 

مرض الموت اور موت کے بعد میں جو علامات ظاہر ہوئیں اس سے خدا کی ذات سے قوی امید ہے کہ رحمٰن و رحیم نے اپنے اس بندے پر اپنی رحمت خاصہ کی بارش کی ہوگی مغفرت فرماکر جنت الفردوس جیسا مقام دیا ہوگا خدا کی رحمت تو مغفرت کے بہانے ڈھونڈھتی ہے اللّٰه ابو جان کو اپنی رحمت میں پناہ دے ہم بھائیوں کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بن جانے کی توفیق عطا فرماۓ  آمین


آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.