Type Here to Get Search Results !

کشاکشِ اسرار و ابن صفی




 تبسم حجازی ؍مرزا صہیب اکرام


کچھ انسان ایسی خدا داد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں کہ انھیں دیکھ کر  یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ایک ہی انسان اتنا ہمہ جہت کیسے ہو سکتا ہے۔ابن صفی ایک ایسی ہی شخصیت کا نام ہے۔ اردو ادب میں بے شمار ایسے نام گزرے ہیں جو اپنے فن میں ید طولی رکھتے تھے ۔انہی عظیم شخصیات میں ایک نام اسرار احمد کا ہے۔ جنھیں ایک زمانہ ابن صفی کے نام سے جانتا ہے ۔ان کے چاہنے والے انھیں طغرل فرغان اور اسرار ناروی کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔

  ابن صفی نے شہرت اور مقبولیت کی جس بلندی کو چھوا وہ اردو ادب کے کسی اور مصنف کے حصہ میں نہیں آئی۔لیکن کیا بطور جاسوسی مصنف اس مقام تک پہچنا ہی ابن صفی کی زندگی کا حاصل تھا یا وہ زندگی میں کچھ اور کرنا چاہتے تھے ؟ اس سوال کا حتمی جواب تو ملنا ممکن نہیں لیکن کچھ حد تک جواب ان کی تحریروں میں کہیں نہ کہیں چھپا نظر آتا ہے کہ ابن صفی کے اندر موجود اسرار ناروی کس طرح اپنا وجود منوانے کے لئے بے چین رہے۔۔

میکسم گورکی کہتا ہے "اگر آپ کا کام وہ ہے جو آپ کرنا چاہتے ہیں تو زندگی جنت ہے ورنہ غلامی ہے"۔۔ابن صفی بھی شاید اندر ہی اندر اس رسہ کشی کا شکار رہے کہ وہ کریں جو دل چاہتا ہے یا وہ کام جو وجہ شہرت اور ذریعہ معاش بھی ہے۔

  اسرار ناروی ایک بھرپور شاعر تھے اور ابن صفی ایک مکمل جاسوسی ناول نگار تھے۔اسرار احمد مینا و بلبل اور گل و گلزار کے فسانے لکھا کرتے تھے۔ابن صفی پراسراریت اور سراغ رسانی کو اپنا بنا رہے تھے۔اسرار احمد شاعری میں نظم و غزل میں کھوئے ہوئے تھے لیکن ابن صفی دور کسی محفل میں عریانیت اور فحش نگاری کے خلاف بند باندھنے کا اعلان کر رہے تھے۔اسرار احمد قافیہ و ردیف،معنی و مطالب اور خیال و خواب میں ڈوب کر اپنے لطف کا سامان اور شوق کی تکمیل کر رہے تھے۔ جبکہ ابن صفی کے دل و دماغ میں ان کے شاندار کردار،لازوال کہانیاں،مکالمے اور مناظر خیال سے حقیقت کا روپ دھارنے کو بے چین تھے۔

ایک طرف غزل خواں تھا دوسری جانب کہانی کار۔دونوں میں ٹھنی تھی۔غزل کے میدان میں اسرار احمد کے سامنے غالب و میر جیسے نمونے تھے لیکن اسے اپنی قوتِ گفتار پر یقین تھا۔دوسری جانب ابن صفی کے سامنے کوئی نمونہ نہیں تھا۔اردو زبان و بیان میں جاسوسی ادب کے نام سے کوئی آشنا نہیں تھا۔

اسرار احمد کے کندھوں پر نوح ناروی کی وراثت تھی اور ابن صفی کے سامنے ایک گہرا اندھیرا۔ ایک طرف سجا سجایا بازار تھا لیکن نئے خیال کو لانا امتحان تھا تو دوسری جانب سرے سے محفل ہی نہیں تھی۔ اسرار احمد اپنی دھن کا پکا تھا اور ابن صفی اپنے قول کا۔

مقابلہ قول و اقرار کا ٹھہرا تو اسرار ناروی نے ابن صفی کے سامنے وقتی ہار مانی کیونکہ ابن صفی نے بھری محفل میں راز افشاں کیا تھا اور دعویٰ کر بیٹھے کہ وہ اردو ادب میں جاسوسی کی داغ بیل ڈالیں گے لیکن یہ سب اتنا سادہ سیدھا اور سہل نہیں ہے ان دونوں کی آپسی مخالفت اور مخاصمت کی پوری ایک تاریخ ہے۔

اسرار احمد اپریل 1928 کو نذیرا بی بی اور صفی اللہ کے آنگن میں مہکے ۔ان کی فیملی کائستھ نژاد مسلم تھی۔ان کے اجداد راجا وشیشر دیال سنگھ نے اسلام قبول کیا تو ان کا خاندان مشرف بہ اسلام ہوا تھا ۔ابن صفی کے والد بوجہ ملازمت نارہ سے الہ آباد آئے اور وزیر علی انڈسٹریز میں ملازم بھرتی ہوئے۔جو قیام پاکستان کے بعد بھی یہاں کام کرتی رہی۔ مشہور گھی تلو یہی لوگ بنایا کرتے تھے۔ بعد میں اس کمپنی کی اسپن آف علی آٹوز نکلی جو سوزوکی کو پاکستان میں لائی اور پھر سوزوکی ہی نے اسے خرید لیا۔اور وزیر علی انڈسٹریز کو لیور برادرز نگل گئے۔

ان کی والدہ نذیرا بی بی بہت تعلیم یافتہ خاندان سے تھیں جو حکیموں کا خاندان کہلاتا تھا۔انہوں نے اسرار احمد کی ابتدائی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دی۔ اسرار احمد کے کئی بہن بھائی تھے ۔اسرار احمد نے اپنی ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں حاصل کی ۔۔سات سال کی عمر میں پڑھی طلسم ہوش ربا نے ان کے ذہن پر بہت اثر کیا اور ساتویں جماعت سے نثر لکھنا شروع کی اور آٹھویں جماعت میں پہلی نظم لکھی ۔۔ابتدائی دور میں وہ جگر مراد آبادی سے متاثر تھے ۔سیکنڈری تعلیم الہ آباد میں حاصل کی اور ڈی اے وی اسکول سے میٹرک کیا۔اسی دور میں اشتراکیت سے متاثر ہوکر بھی کچھ شاعری کی.اسرار احمد نے ہائی اسکول کی تعلیم الہ آباد کے ایونگ کرسچین کالج سے حاصل کی ۔یہاں اسرار احمد کی شاعری کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا وہ اکثر ہوسٹل کے مشاعروں میں اپنا کلام سنانے لگے ۔کالج کے پہلے سال تک پبلک میں پڑھنے سے ہچکچاتے رہے لیکن دوسرے سال وہ لٹریری سوسائٹی کے پریزیڈنٹ منتخب ہوئے اور انہیں اپنی شاعرانہ تخلیقات مشاعروں میں پڑھنی پڑیں۔ان کی نظم " بنسری کی آواز " نے مولوی انوار الحق کو بہت متاثر کیا۔ وہ اس وقت اردو فیکلٹی کے ڈین تھے ۔ اُنھوں نے پیشین گوئی کہ اسرار احمد بہت بڑے شاعر بنیں گے۔لیکن جب اسرار احمد پر ابن صفی کا رنگ چڑھا تو وہ اسرار ناروی کے قتل کے لئے ان سے سے ہمیشہ ناراض رہے ۔ اسرار احمد نے پہلے الہ آباد یونیورسٹی جوائن کی لیکن بعد ازاں مختلف وجوہات کی بنا پر اپنی بیچلرز کی ڈگری آگرہ سے لی۔

1948 میں شعبہ شاعری کے آڈیٹر کے طور پر نکہت پبلیکیشنز میں جاب شروع کی۔اس کے بعد وہ بطور ٹیچر بھی کام کرتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی تعلیم بھی مکمل کرتے رہے ۔نکہت پبلیکیشنز میں وہ طغرل فرغان اور سنکی سولجر کے نام سے مزاحیہ تحریریں تخلیق کرنے لگے۔1952 میں وہ پاکستان ہجرت کرگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔

  ابن صفی اسرار ناروی اور طغرل فرغان کے نام سے اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ وہ مزاح اور شاعری کے باب میں جس رفتار سے کام کر رہے تھے ان کے ابتدائی کلام اور مزاح کی پختگی دیکھ کر ان کے روشن مستقبل کی نوید ضرور کئی بزرگوں نے سنائی ہوگی ۔لیکن مشیت ایزدی کو کیا منظور تھا یہ اس وقت کوئی نہیں جانتا ہوگا۔1951 کا سال ابن صفی کی زندگی کا تاریخی سال کہا جاسکتا ہے ۔۔اس سال انہوں نے ایک ادبی حلقہ میں ہوئی بحث سے متاثر ہوکر اردو میں شفاف اور طبع زاد جاسوسی ادب کی بنیاد رکھنے کا دعویٰ کیا اور اس کام میں ایسے لگے کہ اسرار ناروی اور طغرل فرغان کہیں کھو گئے۔ابن صفی کے اندر چھپا حساس شاعر مدتوں تک دبا رہا۔ضروریات زندگی،معاش اور مقبولیت کی دیوی نے ابن صفی کو ایسا جکڑا کہ اسرار ناروی کو بالکل نظر انداز ہونا پڑا۔

ابن صفی نے عباس حسینی کے ماہنامہ نکہت پبلیکشنز میں جاسوسی دنیا کی شروعات کی۔اس کے بعد جو ہوا وہ ادب کی تاریخ میں رقم ہے۔ایک ایسے سفر کی شروعات ہوئی جو ان کی وفات تک مسلسل مائل بہ عروج رہا۔۔۔ابن صفی نے دیکھتے ہی دیکھتے عروج حاصل کیا اور ان کی شہرت ہندوستان اور پاکستان میں اردو اور ہندی پڑھنے والے باذوق افراد تک جا پہنچی۔کہا جاتا ہے کہ ابن صفی کی شہرت وبا کی طرح پھیلی تھی۔ ایک زمانہ ان کی ہر آنے والی تخلیق کا منتظر رہتا تھا۔ 

ابن صفی نے جہاں اردو جاسوسی ادب کو ایک نئی جہت دی وہیں اسرار ناروی کو پیچھے دھکیل دیا اس دور میں ان کی لکھی شاعرانہ تخلیقات برائے نام رہیں۔ بظاہر تو ابن صفی کے نام کی چکاچوند نے اسرار ناروی  کو دنیا کی نظروں میں دھندلا دیا ۔  لیکن  اسرار ناروی حالات کے ستم کا شکار ہونے کے باوجود کبھی کبھار ابن صفی کی بلند و بالا دیوار سے جھانک کر اپنے ہونے کا احساس دلانے کی کوشش کرتے اور ابن صفی کو للکارتے اور اپنے وجود کو زندہ رکھنے کی سعی کرتے۔اس کی جھلک ہمیں ابن صفی کے ناولوں کے شاعرانہ ٹائٹل اور بہترین منظر نگاری میں صاف نظر آتی رہی۔۔جانے انجانے میں ابن صفی کے پردے میں چھپا سچا اور حساس شاعر اور کھل کر سامنے آنے لگا۔

اس بیچ دونوں جہتوں میں ہر گذرتے دن کے ساتھ تلخی بھی بڑھتی رہی۔اسرار احمد نے اپنے قتل پر ابن صفی کو کبھی معاف نہیں کیا اور ابن صفی نے اسرار احمد کی ضد کو بچپنا سمجھا۔دونوں کے مابین اس تلخی نے اردو ادب کو ایک نئی صنف اور لطف سے روشناس کرایا۔اس مخالفت مخاصمت اور اپنے اپنے وجود کی بقا کی جنگ میں کبھی اسرار ناروی ابن صفی کے اندر سے جھلکتے اور کبھی اسرار ناروی کے کلام میں ابن صفی ملتے۔ایک دوسرے پر طنز و مزاح کے نشتر بھی چلاتے اور کبھی کبھی ایک دوسرے سے اپنا آپ منوا بھی لیتے کیونکہ دونوں کو ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے انکار نہیں تھا لیکن دونوں ہی اپنے وجود کو قربان کرنے کو تیار نہیں تھے۔

ابن صفی کا پلڑا کئی وجوہات سے بھاری رہا اس وجہ سے اسرار ناروی کی زبان تلخ ہوتی گئی۔اس کے جواب میں کبھی ابن صفی اسرار ناروی کی عظمت کو تسلیم کرتے اور کبھی طنز کے نشتر سے ان کو چھلنی بھی کر دیتے۔

ابن صفی اور اسرار ناروی کی اس چپقلش اور ادبی تفریق نے اردو ادب میں ایک نئی روایت کو جنم دیا۔ایک ہی انسان کے اندر موجود دو الگ جہتوں کے تصادم کے بعد اسرار ناروی اور ابن صفی کے ہاں ایک دوسرے پر طنز و مزاح اور تنقید کا ایسا دفتر کھلا جس نے کبھی تو پڑھنے والوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی اور کبھی سنجیدگی سے مطالعہ کرنے والوں کو چونکا ڈالا۔ایک ہی انسان کے دماغ میں دو الگ حیثیت کے مکمل ادبی انسان پل رہے تھے اور دونوں اپنی جگہ بہترین تھے اب دونوں میں سے کسی ایک نے دوسرے پر سبقت تو لے جانی تھی ۔ابن صفی نے اسرار ناروی پر کھلم کھلا طنز کے نشتر چلائے کیونکہ ابن صفی کو دوام تبھی حاصل ہو سکتا تھا جب اسرار ناروی دب جاتا۔دوسری طرف اسرار ناروی دبا ضرور ، لیکن اس نے اپنے فن پر سمجھوتا نہیں کیا بلکہ اس کو جب بھی موقع ملا اس نے ابن صفی کو ادبی کچوکے لگائے ۔

ابن صفی کبھی اسرار ناروی کو سمجھاتے اور کبھی تنگ آ کر  اپنے جاسوسی ناولوں میں شاعری اور شعرا کے کچھ نقشے کھینچتے تاکہ اسرار ناروی جان سکے کہ اگر ابن صفی نہ ہوتے تو اسرار ناروی کی حیثیت کیا ہوتی۔

ابن صفی مزاح کے میدان میں حیوان ظریف تھے۔اس کا سب سے بڑا مظاہرہ انہوں نے اپنے ہی وجود میں چھپے شاعر اسرار ناروی پر طنز کر کے کیا جب وہ اسرار ناروی کو شعرا کی حیثیت اور حقیقت دکھا رہے تھے ۔

انہوں نے اپنے ابتدائی کرداروں میں ناشاد کا کردار متعارف کروایا جو جاسوس ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھا۔اس کی شاعری بالکل بے وزن  ہوا کرتی  اور وہ ہمیشہ بحروں کی تقطیع ’’ "ابے کھٹ کھٹ‘‘" کے اوزان پر کرتا ہے ۔ناشاد کا کردار ایک ایسے انسان کا ہے جو بننا تو شاعر چاہتا تھا لیکن قسمت سے سیکریٹ ایجنٹ بن جاتا ہے لیکن شاعری چھوڑ نہیں پاتا۔اس کی بے وزن شاعری سے ابن صفی دو کام کرتے ہیں ایک تو یہ ثابت کرتے ہیں کہ جب انسان دو کام کرنے لگے تو بسا اوقات دونوں بگڑ جاتے اور خاص طور پر شاعری تو بالکل ہی تہہ و بالا ہو جاتی ہے لیکن دوسرا پہلو ابن صفی اور اسرار ناروی کا مشترکہ دکھ بھی ہے اور اکثر لوگوں کی زندگی کا المیہ بھی کہ وہ زندگی کی جدو جہد میں لگ کر اس کام سے دور ہو جاتے ہیں جو ان کے دل کو عزیز تر ہوتا یے۔جیسے ابن صفی شاعری سے دور ہو گئے۔

"یار کیا کرتا ۔ناشاد بسور کر بولا۔ "شعر کہنے میں اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی بچہ جننے میں "

"ارے تو تم شعر کہہ رہے تھے ؟"

"کہنا پڑتا ہے ۔۔بلکل اسی طرح جیسے کوئی نوالہ حلق میں اٹک جائے ۔یا اگل دو یا نگل جاؤ  ۔خدا کی قسم کلیجہ خون ہورہا ہے اپنا کیا شاندار مشاعرہ چھوٹا ہے ۔" ۔۔ 

                                                                                        ( کالے چراغ)

لڑکیوں کا جزیرہ میں جب پہلی بار سارجنٹ ناشاد کا کردار بطور شاعر قارئین کو نظر آتا ہے تو ابن صفی اس کے ذریعے اسرار ناروی پر طنز کرتے ہیں کہ دیکھو آج کل کے شاعر درحقیقت ایسے ہیں جو چند چمچہ گیروں کے ساتھ غالب و میر سے بھی بھڑ جانے کا دعویٰ رکھتے ہیں لیکن  ان کی اپنی شاعری کا وزن تک درست نہیں ہوتا۔اس منظر میں ابن صفی نے ناشاد اور اس کی شاعری کا مزاحیہ نقشہ کھینچا ہے ۔

" سارجنٹ ناشاد ایک غزل کہہ رہا تھا ۔۔سامنے رکھے ہوئے کاغذ پر اس نے بہت سے قوافی لکھ رکھے تھے ۔ان قافیوں میں ایک ایک مصرعہ کہہ کر ان پر گرہیں لگاتا جا رہا تھا ۔اچانک ایک مصرعے پر اسے گاڑی رکتی ہوئی سی معلوم ہونے لگی ۔اس نے اس کی تقطیع شروع کردی ۔

غم جاناں ۔ابے کھٹ کھٹ ۔۔لہو بن کر ۔۔ابے کھٹ کھٹ ۔۔ہا ٹھیک تو ہے ۔غم جاناں لہو بن کر ٹپک آنکھوں سے کچھ یوں بھی ۔

ابے کھٹ کھٹ۔۔ ابے کھٹ کھٹ ۔ ابے کھٹ کھٹ ۔۔ابے کھٹ کھٹ 

سارجنٹ ناشاد اسی طرح مصرعوں کی تقطیع کرتا تھا ۔فاعلاتن فاعلات  کے بکھیڑے آج تک اس کی سمجھ ہی میں نہیں آتے تھے ۔۔ویسے وہ اکثر دوسرے شعرا کو عروض سے ناواقف اور بلکل ہی کندہ تراش بتایا کرتا تھا۔ 

سارجنٹ ناشاد فوجی آدمی تھا ۔تعلیم بھی واجبی سی تھی لیکن اس کے باوجود اسے جگت استاد ہونے کا دعویٰ تھا اور اس کے ساتھ والے اس کی استادی کے قائل بھی تھے کیونکہ اکثر اس کے اشعار میر و غالب جیسے اساتذہ کے اشعار سے بھی لڑ جاتے تھے ۔ "

ابن صفی کا جاسوسی ناولوں میں سب سے مقبول شاعر کردار استاد محبوب نرالے عالم تھا۔اس کردار میں انہوں نے فی زمانہ شعراء کے حالات کا نقشہ کھینچ کر اسرار ناروی کو تنبیہ کی ہے کہ انسان بے شک نادر شاہ درانی کے خاندان سے ہو جب وہ شاعری سے جڑتا ہے تو آج کے دور میں یہ شعبہ اس کو چنا جور فروخت کرنے والا بنا دیتا ہے ۔یعنی آج کے دور میں شاعر اور شاعری دونوں کی کوئی عزت نہیں رہی بلکہ خود ابن صفی نے جو عزت بطور ابن صفی کمائی ہے اس کو بھی اسرار ناروی کی وجہ سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

پاگلوں کی انجمن میں استاد کا حسب نسب کچھ اس طرح بیان ہوا ہے ۔۔

 "اچانک ایک دن استاد محبوب نرالے عالم کو اطلاع ملی کہ یہ سیاسی بیداری کا زمانہ ہے۔ لیکن اتفاق سے یہ ان کی بیکاری کا زمانہ نہیں تھا۔ انہوں نے ان دنوں جیو تش اور تعویذ گنڈے کی آڑھٹ“کر رکھی تھی۔ ان کا یہ کار خانہ“ ایک چلتی ہوئی سڑک کے کنارے ایک تخت پر واقع تھا۔ اگر کوئی پوچھتا کہ بھائی اس دھندے سے کیونکر لگے تو بڑی عقل مندی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ....

”چنگیز بابا کی نسل سے ایک قلندر بابا عمران شاہ ہیں۔ ان کی نظر عنایت ہو گئی ہے۔ میں بھی اسی نسل سے ہوں۔ لیکن میرا سلسلہ ڈفال خاں سے ملتا ہے جو چنگیز خان کے دادا زاد بھائی تھے۔“

پھر یک بیک ہنس کر فرماتے ” نہیں . . . . وہ ڈفالی اور ہوتے ہیں آپ وہ نہ سمجھئے گا . . . . ڈفال خان دوسرے تھے۔!‘‘

اگر اس وقت کوئی ان کا قریبی شناسا موجود ہوتا تو استفسار کرنے والے کے رخصت ہو جانےپر اس سے راز دارانہ انداز میں کہتے ۔" بھائی کیا بتاؤں یہ بزنس کا معاملہ ہے ، ورنہ میں تو دراصل نادر شاہ درانی کے سلسلے سے تعلق رکھتا ہوں۔ !“

استاد محبوب نرالے عالم جاسوسی ناولوں سے پرے ایک حقیقی کردار بھی تھے۔کراچی کی سڑکوں پر چلتے پھرتے جیتے جاگتے انسان کو اپنی تراشی دنیا اور کہانی کا کردار بنا دینا اور پھر اس سے اسرار ناروی کے شوق ِ شاعری پر چوٹ کرنا ابن صفی کا ہی خاصہ تھا۔

ابن صفی نے محبوب نرالے عالم کے کردار کو ایک شاعر کے کیری کیچر کے طور پر پیش کیا۔یہ تمسخر صرف ایک فرد پر نہیں ہے نہ ایک شاعر پر بلکہ یہ معاشرے کے ان حالات پر بھی چوٹ ہے جن کی بدولت ایک شاعر چنا فروش بن جاتا ہے اور اس کا فن اس کا مذاق بن جاتا ہے۔مزاح کے پیرائے میں سب کچھ کہہ جانا ابن صفی کا کمال تھا۔محبوب نرالے عالم اعلی حسب نسب رکھتے ہوئے چنے بیچتے ہیں ۔اس کردار کو ہم معاشرے کی بے حسی اور ناقدری کا استعارہ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ استاد محبوب نرالے عالم کی شاعری کا حال ابن صفی نے کچھ یوں بیان کیا ہے ۔

" شاعر کس پائے کے ہوں گے۔ یہ تو تخلص ہی سے اندازہ ہوجاتا .. اتنا لمبا چوڑا تخلص شاید ہی کسی مائی کے لال کو نصیب ہوا ہو۔ محبوب نرالے عالم۔۔۔

 استاد کا قول تھا کہ بڑا شاعر وہی ہے جس کے یہاں انفرادیت بے تحاشہ پائی جاتی ہو۔۔۔۔ لہذا ان کا کہا ہوا شعر ہمیشہ بے وزن ہو تا تھا ۔۔۔

فرماتے تھے اوزان تو سبھی کی شاعری میں ہوتا ہے لہذا میری بے وزنی ہی میری انفرادیت ہے۔اور اس طرح مجھے بہت بڑا شاعر تسلیم کیا جانا چاہئے۔ بسر اوقات کے لئے پھیری لگا کر مسالے دار سوندے چنے  بیچتے  تھے۔ مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جو بھی پکڑ پا تا بری طرح جکڑ لیتا بڑےبڑے لوگوں سے یارانہ تھا.... پھر عمران کیسے محروم رہتا۔

”کوئی عمدہ  سا شعر استاد ۔۔۔ عمران انہیں کی میز پر جمتا ہوا بولا۔

استاد نے منہ اوپر اٹھایا۔ تھوڑی دیر ناک بھوں  پر زور دیتے رہے پھر جھوم کر بولے۔ سنئے “

حسن کو آفتاب میں صنم ہو گیا ہے

عاشقی کو ضرور بے خودی کا علم ہو گیا ہے

دوسری جگہ استاد کو ذکر کچھ اس طرح آتا ہے ۔

تم بھلا باز آؤگے غالب

راستے میں چڑھاو گے غالب 

کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب 

شرم تم کو مگر نہیں آتی 

یہ تو وزن دار ہے استاد ؟ عمران نے حیرت سے کہا۔۔

"میں نے بتایا نا غالب کی روح حلول کرگئی تھی ۔پھر وزن کیسے نہ ہوتا "۔۔

اکثر استاد کے جسم میں بعض مشہور مقدین کی روحیں بھی حلول کر جاتی تھین ۔اور وہ باوزن اشعار بھی کہ نکلتے تھے ۔متاثرین میں سے تو کسی کو قابل اعتنا ہی نہیں سمجھتے تھے ۔۔

عمران نے استاد کے شانے پر ہاتھ مار کر کہا۔۔

" سنو . . . اکثر لوگ تمہارے آئیڈیاز چرالیا کرتے ہیں۔!“

”جی بس کیا بتاؤں . . . . ! استاد ٹھنڈی سانس لے کر بولے۔ ”نہ صرف وہ لوگ جو زندہ ہیں .... بلکہ وہ بھی جو مر گئے۔!‘‘

”وہ کیسے استاد ... ؟“

"خواب میں آکر .... مومن غالب عام طور پر اس قسم کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ میرا شعر تھا۔

بے غیرت ناہید کی ہر تان ہے زمپک

شعلہ سا لپ لپ لپ جھک

اب آپ دیکھئے ٹیلی ویژن والوں سے معلوم ہوا کہ یہ غالب صاحب کا ہے ۔ ؟

" مومن کا ہے استاد . . . . !

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک

شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

اب یہی دیکھ لیجئے .... ! میں نے بے غیرت ناہید کہا ہے .... اور وہ فرماتے ہیں اس غیرت۔۔

ناہید . . . . ! ہوئی نہ وہی خواب کی چوری والی بات ۔!‘‘ 

ابن صفی نے اسرار ناروی پر جب چوٹیں کیں تو اسرار ناروی بھی اکثر ابن صفی سے ٹکرا جاتے۔بلاشبہ ابن صفی نے اسرار ناروی کو محدود کر دیا تھا لیکن اسرار ناروی نے اپنے ہونے کا احساس کبھی ختم نہیں کیا بلکہ وہ اپنے کلام میں ابن صفی کو بار بار للکارتا رہا اور دنیا کو بتاتا رہا کہ ابن صفی نے اس کا قتل کیا ہے اسی طرح جب اسرار ناروی اپنے فن کی بے حرمتی پر سیخ پا ہوتا ہے تو وہ اپنی ناقدری پر ابن صفی کو بڑی سختی سے یہ احساس دلاتا کہ انہوں نے اپنی معاشی ضروریات کے لئے کس طرح اپنے اندر کے حساس شاعر کو دبا رکھا ہے ۔۔

اسرار ناروی کا جو کلام ستر اسی کی دہائی میں سامنے آتا  ہے اس میں بھی تلخی کا رنگ واضح نظر آتا ہے اور اس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے ۔وہ اسرار ناروی جس نے 14 15 سال کی عمر میں شاعری کی ابتدا کی اور فراق گورکھپوری،مطفی زیدی اور وامق جونپوری کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کی اس کا مجموعہ کلام اس کی زندگی میں نہ شائع ہوکر دنیا سے رخصت ہونے کے تینتیس برس بعد شائع ہوا۔

اسرار ناروی ابن صفی پر پھٹ پڑتا ہیں اور ان کے قلم کی پختگی ابن صفی سے سوال بھی کرتی ہے اور ابن صفی پر طنز ببی کرتی ہے جب وہ کہتا ہے۔۔

اس شہر خرابی میں لوگو اک ابنِ صفی بھی رہتا ہے

ہے پیٹ کا کتا وہ یعنی جھوٹے افسانے لکھتا  ہے

اللہ کا اس کو خوف نہیں، کب عقل کے ناخن لیتا ہے

دیوانگیوں کے شہر بتا ہم کیوں تیری  پرواہ کریں

اسی طرح ایک دوسرے موقع پر اسرار ناروی کہتا ہے ۔

یہ کشمکش کا زمانہ یہ آہ فکرِ معاش

بہت ہی تلخ ہے اے دوست زندگی میری

ایک حساس شاعر جسے حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہونا پڑے اس کے اندر کا کرب مختلف انداز میں باہر نکلتا ہے۔

تو  ہنس لیں گے اپنے  ہی احوال پر ہم

اگر کوئی صورت نہ نکلی خوشی کی

ہم اپنے ارادے سے کب آئے تھے یاں

تو پھر ہے یہ کیسی ہوس زندگی کی

غـزل بن گئـی زینـت بزم عـشرت

غزل گو نے افلاس میں خودکشی کی

ابن صفی ہونا اسرار ناروی کو کبھی قبول نہیں تھا اس لیے وہ کبھی ابن صفی کہ شہرت کامیابی اور عروج سے متاثر نہیں ہوا بلکہ اس نے ابن صفی کی کامیابی میں اپنے فن کو کچلنے کا منظر دیکھا تھا کہ کیسے ایک شاعر کے فن کو پامال ہونا پڑا اور شاعر کو پس منظر میں جانا پڑا۔

سود و زیاں کے بازاروں میں ڈھونڈ رہا تھا اپنا مول

بـن بہروپ کسـی نـے قیمت دو کـوڑی نہ لگائی

اپنی دوسری جہت اور انسانی جبلت جو کامیابی اور ستائش کی متلاشی تھی اس پر بھی اسرار ناروی بڑے دلفریب انداز میں چوٹ کرتے ہیں ۔

ہـے کون جس کو اپنی ستائش نہیں عزیز

مارے گئے تھے ہم بھی اسی رُخ پہ دوستو

اسرار ناروی کا سب سے بڑا غم اور ابن صفی پر اعتراض یہی رہا ہے وہ قصے کہانیوں میں ایسے گم ہوئے کہ انہوں نے اسرار ناروی کو بھلا دیا اور آہستہ آہستہ وقت کی رفتار نے ابن صفی کو تو چہار عالم میں معروف و مشہور کر دیا لیکن اسرار ناروی کی کہانی اس کا فن سب کچھ دنیا سے اوجھل ہو گیا اور اسی وجہ سے وہ ابن صفی سے کہتا ہے کہ تم نے دنیا جہان کے قصے لکھ ڈالے مگر افسوس میں تمہیں یاد نہیں رہا اور اصل میں تم نے مجھے نہیں اپنے وجود کو بھلا دیا ہے ۔

لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں

لیکن نہ لکھ سکے کبھی اپنی ہی داستاں

دوسری جگہ اسرار احمد ابن صفی پر عجیب دکھ بھری چوٹ کرتے ہیں کہ ابن صفی نے جو کہا وہی سب میرا بھی فن سمجھا گیا لیکن میرا فن اس سے کہیں بڑا تھا مگر افسوس وہ کبھی سامنے نہ آ سکا اور دنیا نے جو دیکھا اسی پر یقین کر لیا۔

جو کہہ گئے وہی ٹھہرا ہمارا فن اسرارؔ

جو کہہ نہ پائے نہ جانے وہ چیز کیا ہوتی

اسی طرح ایک اور جگہ اسرار ناروی نے ابن صفی کو مخاطب کیا ہے کہ تم اپنے اصل سے دور ہو کر ملکوں ملکوں مشہور ہو چکے ہو مگر کیا تم خود کو بھی پہنچانتے ہو۔تمہیں تمہاری حقیقت بھی یاد ہے؟ جگ بیتی تو تم نے خوب لکھ دی ہے اب اپنے اوپر بھی نظر کرم کرو ۔

پاس پڑوس کے لوگ بھی تم کو پہچانیں تو بات بھی ہے

جگ بیتی لکھ لکھ کے صفیؔ جی یوں تو بہت مشہور ہوئے

ابن صفی اور اسرار ناروی کی اس ادبی دشمنی اور شخصی تفاوت میں کبھی سرد مہری اور کبھی نرمی آتی رہی۔جب اسرار ناروی کا گلا گھونٹ کر ابن صفی کو اپنایا گیا اس وقت سے اسرار ناروی تو تلخ ہوتے گئے لیکن ابن صفی اپنی ابتداء میں اسرار ناروی کے حوالے سے سخت گیر نہیں تھے انھیں اندر ہی اندر احساس تھا کہ انہوں نے اسرار ناروی کو ختم کیا ۔ اسی لئے بطور ابن صفی اپنی تمام جہتوں کو ہلکے پھلکے انداز میں ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے یعنی ان کا خیال تھا کہ اسرار ناروی اور طغرل فرغان دونوں ان کے معاون بن کر ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔اسی وجہ سے آغاز میں عمران کے کردار کو ابن صفی نے پہلے ہی ناول میں شاعرانہ رنگ میں پیش کیا۔

عمران کہانی کے ہر منظر میں جاسوس کے ساتھ ساتھ شاعر بھی نظر آتا رہا یہ ابن صفی کا اسرار ناروی کے رنگ کو اپنے ایک عظیم کردار کے ذریعے اپنانا تھا۔لیکن عمران کی شخصیت کے تناظر میں یہ تو طے ہے کہ شاعری کا یہ حصہ مزاح سے بھرپور ہونے والا تھا لیکن پھر بھی ابن صفی نے کوشش کی۔اس کے ساتھ عمران کے ذریعے شعری مزاح صرف اسرار ناروی پر طنز نہیں تھا بلکہ ایک قسم کا افسوس تھا ۔

’’اس کا مطلب یہ کہ قاتل و مقتول دراصل عاشق و معشوق تھے۔

عمران پیارے، ذرا سنجید گی سے ۔ 

”یہ تنکا بتاتا ہے کہ یہی بات ہے ۔‘‘عمران نے کہا۔  اور اردو کے پرانے شعراء کا بھی یہی خیال ہے۔ کسی کا بھی دیوان اٹھا کر دیکھ لو! دو چار شعر اس قسم کے ضرور مل جائیں گے جن سےمیرے خیال کی تائید ہو جائے گی۔ چلو ایک شعر ہی سن لو۔

موچ آئے نہ کلائی میں کہیں

"سخت جاں ہم بھی بہت ہیں پیارے "

                                                             ( خوفناک عمارت )

ایک اور جگہ عمران میر کے شعر کا مذاق اڑاتا ہے ۔۔ساتھ غالب اور سودا کے شعر بھی پڑھتا ہے ۔

”لیکن یہ ہوا کس طرح؟

اسی طرح جیسے شعر ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ شعر مجھے بھرتی کا معلوم ہوتا ہے جیسے میر کا یہ

میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھتے ہو

 ان نے تو قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا

بھلا بتاؤ دیر میں کیوں بیٹھا جلدی کیوں نہیں بیٹھ گیا۔

دیر نہیں دیر ہے۔ یعنی بت خانہ " فیاض نے کہا پھر بڑ بڑا کر بولا۔ " لا حول ولا قوۃ میں بھی اسی لغویت میں پڑ گیا۔ 

بعض عقلمند شاعر بھرتی کے شعر اپنی غزلوں سے نکال بھی دیا کرتے ہیں“

یار عمران میں باز آیا تمہاری مدد سے ۔

"مگر مری جان یہ لو دیکھو . . . 

 نقش فریادی ہے کسی کی شوخی تحریر کا 

 لاش غائب کر نے والے نے ابھی خون کے تازہ دھبوں کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ مرزا افتخار رفیع سودا یا کوئی اور صاحب فرماتے ہیں۔

قاتل ہماری لاش کو تشہیر دے ضرور 

آئندہ تاکہ کوئی نہ کسی سے وفا کرے"

عمران کے اس شاعرانہ انداز کو قارئین نے بھی سراہا۔یہ ابھی عمران کا آغاز تھا۔اس آغاز کو دیکھتے ہوئے عین ممکن تھا کہ عمران کے ذریعے شعری ادب کو جاسوسی ادب کا حصہ بنایا جاتا لیکن دوسری جانب اسرار ناروی کو اپنی پیروڈی، کیری کیچر یا خاکے سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔وہ تو اپنی مسلمہ حیثیت کو منوانا اور جینا چاہتے تھے۔اسی باعث ابن صفی کا یہ کام ان کے لہجے کی تلخی کم نہ کر سکا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ بڑھ گئی۔

اسرار ناروی کے اس رویے کا جواب ابن صفی نے عمران کے ذریعے دیا جب عمران دو الگ اشعار کو ملا کر مزاح کا پہلو تراشتا ہے۔یہ اردو مزاح کی ایک معروف ترکیب ہے جس میں دو مختلف اشعار کو ملا کر ایک نیا شعر تخلیق کیا جاتا ہے یہ اردو ادب میں درحقیقت ابن صفی کا کارنامہ ہے۔

ابن صفی نے دسمبر  1955 میں شائع ہونے والے  عمران سیریز کے   تیسرے ناول " پراسرار چیخیں " میں یہ ترکیب پہلی بار قارئین کے سامنے پیش کی.جب ایک سین میں عمران  فیاض کے دفتر میں یہ شعر پڑھتا ہے ۔

ہے دل شوریدہ غالب طلسم پیچ و تاب

وہ صبا رفتار شاہی اصطبل کی آبرو

اس کے بعد کئی ناولوں میں یہ ترکیب آئی ۔۔

 ان کو آتا ہے پیار پر غصہ

ہم ہی غالب کر بیٹھے تھے پیش دستی ایک دن

                                                     (بھیانک آدمی)

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

کوئی بندہ رہا اور  نا کوئی بندہ نواز

                                         ( قبر اور جنجر)

بنا کر یتیموں کا ہم بھیس غالب

تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں 

                                         ( آھنی دروازہ)

رات کا منظر سہانا ہے بہت 

نیک مائی نیک بابا دے خدا کے نام پر

                                            ( حماقت کا جال) "

یہ مزاح کے پیرائے میں کہے گئے اشعار ہیں جو یقیناً قارئین کے چہروں پر مسکان لاتے ہیں۔لیکن یہ ابن صفی کی دراصل اسرار ناروی کو تنبیہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ میں بھی اگر جوابی کاروائی پر اتر آؤں تو بہت کچھ کہہ سکتا ہوں لیکن میں اسرار ناروی سے الجھنا نہیں چاہتا۔اس پورے دور میں اسرار ناروی نے کبھی ابن صفی کو قبول نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اپنے فن کی ناقدری اور شخصیت کو مسخ کرنے پر ابن صفی کو اشعار میں کھری کھری سنائیں۔

گذرتے وقت کے ساتھ  زندگی کے آخری ایام اور بیماری کے شدید دنوں کے بعد شاید دونوں جانب کچھ برف پگھل گئی کیونکہ ابن صفی اردو دنیا کے سب سے بڑے مصنف بن چکے تھے۔اور اب دشمنی کا دور ان کے حساب سے پیچھے جا چکا تھا لہٰذا وہ اپنی طرف سے اس دشمنی سے دستبردار ہو چکے تھے۔اسرار ناروی ان کے سامنے بہت چھوٹا پڑ چکا تھا اس وجہ سے ابن صفی نے طنز و تشنیع کم کر دی۔ اور مخالفت آہستہ آہستہ دم توڑنے رہی تھی۔

دوسری طرف اسرار ناروی نے بھی اپنے وجود کے احترام کو برقرار رکھتے ہوئے کہیں نہ کہیں ابن صفی کی عظمت کو مان لیا تھا ۔یہ دونوں جانب سے ایک خاموش مصلحت تھی یعنی ایک دوسرے کو قبول کرنے کا آغاز تھا۔اسرار ناروی اپنی بے قدری پر افسردہ تھے لیکن وہ ابن صفی سے لڑ لڑ کر تھک گئے تھے اسی طرح ابن صفی بھی ماضی میں جھانک کر جانتے تھے کہ ان کی وجہ سے اسرار ناروی کے ساتھ بہت ظلم ہوا تھا۔ 

اس بیچ جب ابن صفی میگزین نکالا گیا ۔ابن صفی نے اسرار ناروی کا ہاتھ تھام کر اسے بھی اپنے قریب کر لیا اور ڈائجسٹ میں اسرار ناروی کو جگہ دینے لگے ۔یوں دونوں کے مابین ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ جب ڈائجسٹ میں قارئین کی جانب سے سوال اٹھتے تو کبھی ابن صفی سے اسرار ناروی نے جھانکا اور کبھی اسرار ناروی سے ابن صفی نظر آتے ۔ اور یہاں پر دونوں شاید مدتوں بعد یکجا ہونے لگے اگر ہم ابن صفی کے قارئین کے خطوط پر جوابات پڑھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود اسرار ناروی پر جتنا بھی طنز کرتے رہے یا ان سے نالاں رہے لیکن کبھی کسی دوسرے نے اسرار ناروی پر کچھ کہا تو ابن صفی نے اس وقت اسرار ناروی کا خوب دفاع کیا۔ ان جوابات کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دونوں جہتیں یکجا ہو گئی تھیں اور یہ جواب دونوں مل کر لکھا کرتے تھے۔ابن صفی کو پڑھتے پڑھتے اچانک اسرار ناروی کا انداز آ جاتا ہے اور اسرار ناروی کے کہتے کہتے ابن صفی کی جھلک قاری کو مل جاتی ہے۔ 

یہ پیش رس دونوں جہتوں کے درمیان  سرد و گرم جنگ کا خاتمہ محسوس ہوتے ہیں کیونکہ ابن صفی اپنے عروج پر تھے اور اسرار کی جدوجہد اس وقت بھی جاری تھی۔ ابن صفی کو زندگی کے آخری لمحات میں یقیناً اندر سے کچوکے لگتے ہوں گے کہ انہوں نے اسرار ناروی کے فن کو نظر انداز کیا تھا اسی وجہ سے ڈائجسٹ میں دونوں یکجا نظر آتے ہیں ۔

ابن صفی کے لکھے یہ پیش رس صرف ابن صفی کے نہیں ہیں بلکہ یہ اسرار و صفی کے اندر چھپے کرب کی کہانی ہے جسے دونوں ہنس کر بیان کرتے ہیں۔

میری پہلی غزل میں کاتب کی عنایت سے اور پروف  پروف ریڈ صاحب کی بے خودی کی بنا پر پانچویں شعر کا دوسرا مصرعہ واقعی بے وزن ہو گیا تھا لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی حتی کہ وہ میانوالی والے صاحب کے بھی جنہیں میری ایک پوری غزل بے وزن نظر آئی تھی۔

 بہر حال اس مصرعے کو یوں پڑھیے ۔

کانٹا کسی یاد کا لگا ہے 

کاتب صاحب شاید سمجھے تھے کہ میں کسی کے ساتھ کی لکھنا بھول گیا ہوں اور پروف ریڈر صاحب نے غزل سامنے آتے ہی پروف ریڈنگ کی بجائے ہیڈ بیٹنگ سر دھننا شروع کر دیتے ہیں لہذا ایسی فروگذاشتوں کا احتمال رہتا ہے۔

ایک صاحب نے پوچھا ہے کہ میگزین کی سالگرہ کا جشن کس طرح منائیے گا جو ابا عرض ہے کہ

اپنی ان غزلوں کی قوالیاں کرا دوں گا جو میگزین میں اس وقت تک شائع ہو چکی ہوں گی شاید اس طرح میری شاعری کی تقدیر بھی کھل جائے ۔

                                                                                      (ستمبر 1977ء)


اب وہ صاحب متوجہ ہوں جنہیں میرے شاعر ہونے پر بے حد غصہ آیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں صرف جاسوسی ناول لکھتا رہوں اور ملا دو پیازہ “ بھی میری ”شان“ کے خلاف ہے وغیرہ وغیرہ۔ 

آمےبھائی کیا عرض کروں بہتیری بری عادتوں میں مبتلا ہوں۔ اگر ناول نویسی کی راہ پر نہ لگ گیا ہو تا تو مصور بھی ہو سکتا تھا، گلوکار بھی ہو سکتا تھا۔ ویسے اگر کبھی اگر کبھی اپنے پیشے سے اکتا کر ایک آدھ غزل یا نظم بھی کہہ لی تو کون سی آفت آ گئی۔ اسے بھی برداشت کیجیے۔

                                                                                             (دسمبر 1978ء)


ہاں، ان صاحب سے ضرور دو دو باتیں ہوں گی جنہوں نے لکھا ہے کہ میں شاعری میں بہت بے باک ہو جاتا ہوں۔ ان کا مطلب ہے کھل جاتا ہوں . . بھائی کہیں تو کھلنے دیجیے ۔ فرشتہ نہیں ہوں۔ آپ چاہتے ہیں کہ ”ہیرا پھیری سے بھی جاؤں۔ یہ میرے بس سے باہر ہے۔ عشق کی ایک داستان خود اللہ میاں نے بھی ہمیں بتائی ہے (سورۃ یوسف غور سے ملاحظہ فرمائیے )

بات دراصل پیرا یہ اظہار کی ہوتی ہے۔ اگر میں نامناسب طور پر کچھ کہتا ہوں تو مجھے ضرور آگاہ فرمائے۔

 میں ، آپ کا شکر گزار ہوں گا اور نہ اگر محض ”عشق“ ہی کے ذکر پر آپ بھڑک اٹھتے ہیں تو پھر آپ ہر غزل کے ساتھ حلف نامہ لگانے کا بھی مشورہ دیں گے کہ میں نے یہ قصیدہ اپنی گھر والی کی شان میں عرض کیا ہے ، کوئی نامحرم خاتون اس میں involve نہیں ہیں...

                                                                                 (مئی 1979ء)


جی ہاں! میری غزل میں پھر کتابت کی غلطی رہ گئی تھی۔ چھٹے شعر میں ” ابر ‘‘ کی بجائے ابد “ چل گیا تھا۔ مصرعے کو یوں پڑھیے :

گر زلف سیه ابر کی لہرائے تو کیا ہو

آخری شعر پر میرے گیارہ عدد پڑھنے والوں کو رونا آگیا لہذا اظہار ہمدردی ایک عدد خط گیارہ افراد کے دستخط سمیت روانہ فرمایا ہے اور پوچھا ہے کہ آخر وہ کون بد نصیب ماہ وش ، گلبدن اور عشوہ طرازہیں جنہیں آپ پر ترس نہیں آتا۔ ہمیں ان کے پتوں سے آگاہ کیجیے۔ ہم انھیں آپ کی خوبیاں بتا کرسفارش کر دیں گے۔

                                                                          (دسمبر 1977ء)


ایک اور خط بھی ہے پچھلے شمارے غزل کے اس شعر کی وضاحت چاہی ہے ایک صاحب نے

تجھ سے پہلے تو بہت ساده و معصوم تھا دل

تجھ سے بچھڑا تو کئی بار گنہگار ہوا

پہ پوچھا ہے کہ آج کل کو نسا نمبر چل رہا ہے فرماتے ہیں کہ مبہم باتیں نہ کیا کیجے ہر گناہ کی تفصیل ضروری ہے اور یہ تفصیل نثر میں پیش کیجیے مزہ آ جائے گا۔

میں نے کہا بھائی یہ شعر یادوں کی بارات کا مخفف نہیں ہے خدا کی پناہ آپ نہ جانے کیا سمجھ بیٹھے ۔میاں یہ دل کی باتیں ہیں میری نہیں دل بیچارہ دکھے چاہے اور گھٹ گھٹ کر رہ جائے۔

یارو کیا شاعری بالکل ترک کروا دوگے آخر میری ہی غزل میں یہ مین میخ کیوں نکالی جارہی ہیں۔

                                                                              (نومبر 1977ء)

اور ہاں بھائی یہ صفحہ دل تو درد سر بن گیا ایسا معلوم ہو تا ہے جیسے اس صفحے کے علاوہ پورے میگزین میں اور کچھ ہوتا ہی نہیں آخر تنقید کے لیے صرف میری غزل ہی کیوں رہ گئی ہے ایک صاحب نے پچھلی غزل کے اس شعر کو ہدف بنایا ہے۔۔

تیرے کاشانے کی تعمیر کو کیا نذر کروں

میری تقدیر کا پتھر ہے ترے گھر کے لیے

فرماتے ہیں کیا یہ غزل کا شعر ہے یہ تو کسی تعمیراتی ٹھیکیدار کی کاوش معلوم ہوتی ہے ۔

میرے بھائی جس طرح شاعری میں ایک چیز ضرورت شعری ہوتی ہے اسی طرح عشق کی بھی کچھ ضرورتیں ہیں ضرورت شعری سکندر کو اسکندر اور لیکن کو لیک بنادیتی ہے اور ضرورت  بسا اوقات اس قسم کے شعر کہلواتی ہے۔ بقول فراق :

کچھ آدمی کو ہیں مجبوریاں بھی دنیا میں

ارے وہ درد محبت ہی سہی تو کیا مر جائیں

بہر حال اس شعر کی وجہ سے پورے غزل کہنے پڑی تھی لہذا اس شعر کے علاوہ کسی اور شعر کو اہمیت نہ دیجیے کے پانی غزل یہی شعر ہے ۔

                                                                                 (اکتوبر 1977ء)

اسرار ناروی نے جاسوسی ادب کے سب سے بلند و بالا ادیب کو تاعمر للکارا لیکن کسی نے اسرار ناروی پر غور نہیں کیا۔وفات کے دہائیوں بعد جب اسرار ناروی اپنے پورے رنگوں کے ساتھ منظر پر آیا تو ایک دنیا حیران رہ گئی کیونکہ ابن صفی کی دیوار کے پیچھے چھپے اسرار ناروی نے شاعری بہت کم کی لیکن اس کا معیار استاد شعراء کے ہم پلہ رہا۔ آج ابن صفی کے ساتھ ساتھ ایک دنیا اسرار ناروی کے فن پر بھی بات کرتی ہے اور اسرار ناروی کو اس کا حق اس کے حصے کی محبت قدر اور چاہت آج اسرار ناروی کا قاری دے رہا ہے۔ 

ابن صفی آج حیات ہوتے تو وہ اسرار ناروی کی کامیابی پر خوش ہوتے کیونکہ ان کا اسرار ناروی کو دبانا اس دور کی ضرورت تھی وگرنہ اردو ادب جاسوسی ادب کے ذائقے سے ہمیشہ محروم رہ جاتا ۔

آج اسرار و ابن صفی دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں رہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل ہیں۔دونوں کے قاری ایک دوسرے سے گریزاں نہیں بلکہ وہ دونوں کو ساتھ پڑھنا لازم و ملزوم سمجھتے ہیں ۔

٭٭٭٭٭


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.