Type Here to Get Search Results !

اقراء کے ماہ و سال

 از  :  تبسم حجازی  /  مرزا صہیب اکرام
’’ ماہنامہ اقراء کے تین سالہ سفر پر تفصیلی نگاہ ڈالتا مضمون۔۔ 
جسے پڑھ کر آپ جان سکیں گے کہ اقراء اس مقام تک کیسے پہنچ سکا۔  ‘‘



دنیا میں کتاب کا سفر بہت طویل رہا ہے ۔ پتھر پر لکھنے سے لے کر درختوں کے پتوں تک صدیوں سے یہ جاری ہے۔ پانچ ہزار سال پہلے لکھی گئی پہلی کتاب سے لے کر آج کی لیزر پرنٹنگ تک کتابوں کی چھپائی طباعت اور اشاعت کے انداز و اطوار بدلتے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب کتابیں صرف خواص کے لئے معلومات کا ذریعہ ہوا کرتی تھیں۔ پرنٹنگ کی دنیا میں تبدیلیوں کے ساتھ کتابیں چھاپنا آسان ہونے لگا تو یہ عوام تفریح کا ذریعہ بننے لگیں اس کے بعد ناول رسائل اور ڈائجسٹ جیسی تفریحی کتب وجود میں آنے لگی ۔

رسائل اور مجلوں کی ابتدا سترہویں صدی کے یورپ میں ہوئی۔ابتدائی دور میں یہ فلسفہ اور ادبی تخلیقات تک محدود رہی۔۔ اٹھارہویں صدی تک روس ، امریکہ اور انڈیا میں بھی رسائل چھپنے  لگے اور رسائل اپنے موضوعات کے لحاظ سے متنوع تھے۔ مذہب، سیاست اور سپورٹس سے لے کر خواتین کی دلچسپیوں تک ہر موضوع پر رسائل چھپنے لگے ۔ہندوستان میں اس کی ابتدا انگریز نے عیسائی مشنری کے رسالوں سے کی ۔پھر انیسویں صدی کے اواخر سے بیسوی صدی کی ابتدا تک السٹریڈ ویکلی ،دھرم یگ ، ہندوستان ریویو، مخبر اسلام، الہلال، ادبِ لطیف اور تہذیبِ نسواں جیسے بے شمار میگزین آنے لگے۔آزادی ہند کے بعد اردو رسالوں میں جہاں فاران ، نقوش ،بیسویں صدی، جاسوسی دنیا جیسے ادبی رسالہ شائع ہونےلگےتھے وہیںمذہبی رسالوں میں تجلی،ھدیٰ،برہان، معارف نے اپنی پہچان بنائی۔ ان کے ساتھ ساتھ بانو، خاتون مشرق، جیسے خواتین کے مخصوص رسالہ جات اور شبستاں، ہما ، شمع  جیسے پاپولر اور فلمی رسالوں میں بھی اردو کا اعلی معیار قائم رکھا جاتا تھا۔ کرشن چندر، امرتا پریتم ،راجندر سنگھ بیدی ، خشونت سنگھ ، واجدہ تبسم ، ساحر لدھیانوی ، راجا مہدی علی خاں جیسے اپنے دور کے جانے مانے ادیب اور شاعر ان رسالوں کی رونق بڑھاتے تھے۔۔

لیکن اسی اور نوے کی دہائی میں الیکٹرانک میڈیا کی آمد اور اردو کے ساتھ سرکاری سطح پر کی گئی ناانصافیوں کے بعد اردو رسالوں اور میگزین کی تعداد گھٹنے لگی ۔۔بیسویں صدی کے آخر میں اردو رسائل برائے نام رہ گئے تھے۔ 

نئی صدی کی ابتدا نے جہاں ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت بڑی تبدیلیاں آئیں۔وہیں ای بک کی مقبولیت نے کتابوں کو ایک نئی زندگی دی۔ای بک کی دریافت تو 1971 میں امریکہ میں ہوئی لیکن 1999 میں پی ڈی ایف کی آمد نے اسے عوام میں مقبول بنایا ۔۔

برصغیر میں ای بکس کی آمد حسب معمول کافی تاخیر سے ہوئی۔ اخباروں نے اس چیز کو سب سے پہلے اپنایا پھر یہ ٹیکنالوجی رسالوں اور میگزین تک پہنچی ۔۔ وہ نسل جو کتابوں سے دور ہوچکی تھی اور لیپ ٹاپ اور فون تک محدود ہوگئی تھی انھیں اردو ادب ان کے پسندیدہ پلیٹ فارم کے ذریعہ پہچانے کے خیال نے دسمبر 2019 میں ماہنامہ اقراء کی داغ بیل ڈالی۔ مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے شہر ناندیڑ میں چند محبان اردو نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ۔ بیدر کے بزرگ و کہنہ مشق شاعر امیر الدین امیر کی سرپرستی و رہنمائی میں شروع ہونے والا ماہنامہ اقراء شہر ناندیڑ کا اولین آن لائن رسالہ ہے جس کے مدیر اعلی صادق اسد صاحب ہیں جبکہ ادارت کی ذمہ داری اطہر کلیم انصاری کی ہے.. ادارتی عملے میں بطور اعزازی مدیر رخسانہ نازنین صاحبہ کی شمولیت اس رسالے کو تقویت بخشتی ہے.. ساتھ ہی بطور معاون مدیران محترم سہیل انجم صاحب اور محترم صائم مسعود صاحب اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں..

اقرا نے اپنا تین سالہ سفر مکمل کرلیا ہے۔ ایک ادبی برقی رسالہ کی بنیاد رکھنا اور اسے بنا کسی کمرشیل فائدے کے چلانا بڑا کٹھن کام ہے ۔اقرا کی ٹیم نے نہ صرف یہ سنگ میل سر کیا بلکہ اس کے معیار اور متن میں بتدریج بہتری آتی گئی ۔ اس خوب سے خوب تر کے سفر میں اقرا سے کئی لوگ جڑے ۔کچھ ابتدا سے آج تک ساتھ ہیں توکچھ زندگی کی راہوں میں مصروف ہوگئے ۔۔اقرا کے تین سالہ دور کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ دسمبر 2019 کے پہلے شمارے سے اقرا کی خاصیت رہی کہ اسے مکمل ادبی جریدہ بنائیں۔۔۔

امیرالدین امیر صاحب کی حمد سے لے کر نوجوان حمزہ حسینی کے افسانہ تک ہر صفحے پر اردو ادب کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔ غزلیں نظمیں ،افسانہ ، تحقیقی مضامین ، دلچسپ اداریہ سبھی کچھ تیس صفحات پر مشتمل پہلے شمارے میں شامل تھا ۔اس میں کچھ کمیاں بھی تھیں جن کی قارئین نے فوری طور پر نشان دہی کی اور اگلے شمارے میں اکثر غلطیاں درست کردی گئیں ۔اقرا کے پہلے شمارے میں لکھنے والے اکثر مصنفین رخسانہ نازنین صاحبہ ، حمزہ حسینی اور صائم مسعود برسوں بعد بھی اقرا کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ 

ہر گذرتے مہینہ کے ساتھ اقرا میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ کئی نئے سلسلے اور اصناف متعارف ہوئیں۔۔انٹرویو ، مباحث ، سفر نامہ ،انشائیہ مضامین ، تبصرے گوشہ قارئین وغیرہ اقرا میں وقتاً فوقتاً شامل ہوتے رہے۔۔ اقراء کا ایک مضبوط پہلو اس میں شامل مختلف موضوعات پر لکھے مضامین رہے ہیں ۔پہلے شمارے میں شامل طلاق جیسے سماجی ایشو پر لکھا معلوماتی مضمون ہو یا منشیات پر لکھی تحریر ، خواتین کی اہمیت پر لکھے مضامین ہوں یا قاری کو شخصیت سازی کے مختلف پہلو سے روشناس کرانے والا مضمون ہو،سبھی مضامین تحقیق اور اسلوب کے لحاظ سے عمدگی سے حصہ بنتے رہے۔ ان مضامین کے علاؤہ اقرا کے نثری سیکشن کا ایک بڑا حصہ افسانوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ افسانوں میں نئے لکھاریوں کے ساتھ رخسانہ نازنین ، صادق اسد ، افضال انصاری، مبین نذیراور صائمہ نور جیسے منجھے ہوئے رائٹرز بھی شامل رہے ہیں اور اسی باعث قارئین کو مختلف انداز کے افسانے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ۔لیکن بطور قاری یہ سیکشن اقرا کا کسی حد تک کمزور پہلو محسوس ہوتا ہے کیونکہ کچھ افسانہ نگار روایتی موضوعات سے آگے نہیں بڑھتے اور طرز تحریر میں بھی ناپختگی اور تسلسل کی کمی محسوس ہوتی ہے۔۔

افسانوں اور مضامین کے علاؤہ اقرا میں سفر نامہ بھی شامل رہے ہیں۔جن میں قارئین نے انڈیا کے مختلف شہروں کے ساتھ کچھ بیرون ملک کی بھی جھلکیاں دیکھیں۔

اس رسالے میں مختلف النوع کی کتابوں پر تبصرے بھی شامل کئے گئے ہیں جن کا مقصد خالص ادبی رہا ہے کہ قاری کچھ نئی کتابوں سے متعارف ہوں اور ان رائٹرز اور شعرا کو بھی ان کے فن کی وہ داد ملے جس کے وہ حقدار ہیں ۔۔اسی مناسبت سے اقرا کا ایک سلسلہ گوشہ گہر قابل ذکر ہے جس نے اردو ادب کے سمندر سے ایسے پوشیدہ صدف چن کر ان سے قاری کو روشناس کروایا جن کے نام سے اکثر ادب کے متعلم بھی ناواقف ہوتے ہیں ۔گوشہ گہر قدیم اردو ادب کے تخلیق کاروں سے قارئین کی شناسائی کراتا ہے ۔ وہیں ’’روبرو‘‘ سلسلہ میں قاری کی نئے قلم کاروں سے گفتگو ہوا کرتی ہے۔

ان کے علاؤہ اطہر کلیم انصاری نے ہالی ووڈ کے مشہور زمانہ شو ’’"راؤنڈ ٹیبل‘‘ " کی طرز پر ایک سلسلہ’’ مباحث‘‘ کے نام سے متعارف کروایا ۔ جس میں سب سے پہلے مباحث میں رخسانہ نازنین ،ناز پروائی ، طارق اسلم اور حمزہ حسینی نے حصہ لیا اور دوسرا سیشن ’’ مباحث اسرار ‘‘کے نام سے ہوا جس میں احمد صفی صاحب کے علاؤہ ابن صفی فینز کلب کے کئی ممبران شامل ہوئے ۔ اقرا میں غزلوں اور اشعار کا تناسب کم ہونے کے باوجود انتخاب معیاری رہا ہے ۔

جہاں ایک طرف آن لائن رسالہ بنا کر اسے چلانا ایک مشکل مرحلہ ہے وہیں پر مختلف منصفین کو آن لائن رسالوں کی افادیت پر قائل کرنا اور مستقل لکھوانا بھی ماہنامہ اقرا کے کرتا دھرتاؤں کا بہت بڑا کام ہے۔ تین سال میں اقرا کے سفر میں اس سے بہت سے لوگ جڑے تھے جن میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کا اقرا سے تعلق بڑا گہرا رہا ہے ایسے ہی چند لوگوں کا ہم نے یہاں ذکر کیا۔

رخسانہ نازنین :

رخسانہ نازنین صاحبہ کا اقرا سے تعلق روز اول سے رہا ہے۔ اقرا کی اعزازی مدیر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک کہنہ مشق افسانہ نگار ہیں اور مختلف موضوع پر قلم اٹھاتی رہی ہیں آندھی ،سود و زیاں ،دردِ مشترک ، تحفہ ،نوشتہ تقدیر ، سازش ، احساس ، بڑے لوگ، عہد وفا ،بدلتے چہرے جیسے بہترین افسانوں کی ایک طویل فہرست ہے جو رخسانہ نازنین کے قلم سے نکلی ہیں۔ان کی یہ تخلیقات اقرا کی زینت بن کر قارئین کو محظوظ کرتی رہی ہیں۔ کرونا کے تکلیف دہ دور میں ان کا لکھا مضمون " ’’یہ طوفان بھی گذر جائے گا‘‘ نصیحت آموز اور حوصلہ افزا تھا ۔ سسکتی ممتا اور درد مشترک جیسے افسانوں میں رخسانہ صاحبہ نے خواتین کے دکھوں کو عمدگی سے بیان کیا ہے تو " اس راہ میں اسی موڑ پر میں دل کو چھوتی محبت کی کہانی بیان کی ہے ۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ پس دیوار کرناٹک اردو اکیڈیمی سے شائع ہوچکا ہے ۔

صائم مسعود :

صائم مسعود انصاری نے اقرا کی ابتدا سے گوشہ گوہر نامی سلسلہ میں ہمیں اردو ادب و شاعری کے بہت سے نایاب گہر سے متعارف کروایا ۔ قصیدہ اور مثنوی کے عظیم شاعر بیجاپور کے ملا نصرتی ، اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہاشمی بیجاپوری اور سلطان قلی قطب شاہ کے شاعری کے مختلف رنگ دکھائے اور کدم راؤ پدم راؤ جیسی طویل مثنوی لکھنے والے شاعر نظامی بیدری سے روشناس کروایا۔1040 کے دور سے تعلق رکھنے والے پھول بن کے شاعر ابن نشاطی کے بارے میں دی گئی معلومات دلچسپ اور متاثر کن بھی ہے ۔ان کے علاؤہ مرزا اظفری ،ماہ لقا بائی چندا جیسے کئی اور نایاب فنکاروں کو قاری تک پہنچایا۔اسی طرح امیر خسرو ، قلی قطب شاہ ،ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی کے پس منظر اور حالات زندگی پر کی گئی عمدہ تحقیق صائم مسعود کی محنت کا ثبوت دیتی ہے۔ان کے قلم سے میر انیس ،اسماعیل میرٹھی داغ دہلوی ، پطرس بچاری ، شبلی نعمانی  - ڈپٹی نذیر احمد،میر تقی میر جیسے اردو کے شہرہ آفاق شخصیت کو پیش کیا خراج عقیدت بھی ایک منفرد رنگ میں ہوتا ہے ۔

صادق اسد:

صادق اسد صاحب اقرا کے مدیر اعلی ہونے کے ساتھ ایک اعلی افسانہ نگار بھی ہیں۔ان کے افسانے اقرا کے نثری سیکشن کا ایک اہم حصہ ہوتے ہیں۔ دوسرے شمارے میں لکھے دل گداز افسانہ "’’سبزی منڈی‘‘ " ہو یا کیمرہ کی آنکھ سے بیان کردہ کہانی’’ "ایک آنکھ والا‘‘،" صادق صاحب ہر رنگ میں کمال ڈھاتے ہیں ۔ کرونا کے پس منظر میں لکھا افسانہ ’’دھوپ‘‘ اور ہجرت کے دکھ بیان کرتا ’’مہاجرین‘‘ اور مڈل ایسٹ کے پس منظر میں لکھا ’’محصور‘‘ سبھی انسانی المیوں کے مختلف رخ پر لکھی بہترین تحریریں ہیں۔ان کا ایک شاہکار ’’" دستور زبان بندی‘‘ " آج کل کے سیاسی حالات پر کیا گیاعمدہ طنز ہے ۔ان افسانوں کے علاؤہ ان کا افسانچہ ’’گڑیا‘‘ بھی ان کی قلم پر عمدہ گرفت کا مظہر ہے۔ ان کا افسانہ"’’ دوسرا خط‘‘ " ہر قاری کی آنکھ نم کرنے والی کہانی ہے ۔

حمزہ حسینی :

حمزہ حسینی اور اقرا کا ساتھ پہلے شمارے سے رہا ہے۔ اردو ادب کے متعلم کم عمر نوجوان ہیں افسانہ، مضامین اور شاعری سے لے کر کتابوں پر عمدہ تبصرے تک ہر صنف میں کوشش کی ہے لیکن ان کی مقبول ترین تخلیق ان کے لکھے سفر نامہ ہیں جس میں انھوں نے قاری کو الہ باد ، لکھنؤ ،دہلی ، وارانسی سے لے کر ناندیڑ تک کئی شہروں کی سیر کروائی ہے ۔ اور نہ صرف انڈیا کے مختلف شہروں کے گلیوں کوچوں کی جھلک دکھائی بلکہ ان سے متعلق تاریخی پس منظر ،وہاں کے کھانے اور لوگوں سے ملاقات کا احوال بھی اس باریک بینی اور پر لطف انداز میں کروایا کہ قاری کچھ لمحوں کے لئے خود کو ان مقامات پر محسوس کرتا ہے ۔۔ ان کے الکیمسٹ اور محبوب خان طرزی پرلکھے تبصرہ پڑھ کر یقینا ہر قاری ان کتابوں کو پڑھنے کے لئے بے قرار ہوجاتا ہے ۔۔ اقرا کے سفر کے ساتھ ساتھ حمزہ کے لکھنے کا سفر بھی مسلسل آگے بڑھتا رہا ہے اور ان کے قلم کا نکھار نظر آتا رہا ہے۔

جبین نازاں :

جبین نازاں دہلی سے تعلق رکھنے والی نوجوان قلم کارہیں۔ انھوں نے ’’بوسوں کا جال‘‘ نامی انشائیہ کے ساتھ اقرا سے اپنے تعلق کی ابتدا کی جس میں بوسوں کی دلچسپ اقسام سے قاری کو متعارف کرواکر مسکراہٹ بکھیری۔اس کے بعد ’’شہرِ تمنا‘‘ میں سیاسی طنز و مزاح سے لوگوں کو محظوظ کیا۔"’’ ش سے شرارت‘‘ " میں منٹو اور اقبال سے مکالمہ کئے تو کبھی "’’چ کے چکر "‘‘ میں قاری کو گھن چکر بنادیا ۔مزاح کے علاؤہ جبین نازاں نے "’’پہنچی وہیں پہ خاک‘‘" جیسے سنجیدہ افسانے بھی لکھے اور دلیپ کمار کی وفات پر ’’"روپہلے پردے کا چاند‘‘" جیسا خراج عقیدت بھی ۔۔ان کے علاؤہ جبین نازاں ’’روبرو‘‘ نامی  سلسلہ کی میزبان بھی رہی ہیں ۔۔

حذیفہ اشرف:

نوجوان غزل گو شاعر حذیفہ اشرف عاصمی کا تعلق پاکستان ہے وہ اقرا کے ابتدائی دنوں سے اس رسالےکا حصہ ہیں۔ ان کی مختصر کہانیاں افسانے اور غزلیات وقتاً فوقتاً اقرا میں شامل ہوتی رہی ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے تبصرے بھی اقرا میں بھیجتے رہے ہیں۔حذیفہ کی شاعری میں کم عمری کے باوجود پختہ پن نظر آتا ہے اور شاعری پڑھ کر امید جاگتی ہے کہ ہماری نئی نسل اردو سے آگے بھی محبت کر تی رہے گی۔

صائمہ نور:

صائمہ نور کا تعلق بھی پاکستان سے ہے بنیادی طور پر ناولز ، ناولٹ وغیرہ لکھتی ہیں ۔پاکستان کے تمام معروف ڈائجسٹوں میں ان کی کہانیاں شائع ہوتی ہیں۔ اقرا میں بھی ان کا تعاون شروع دن سے رہا ہے ۔ رسالے میں ان کے افسانے اور افسانچے شائع ہوتے رہے ہیں۔ان کے مختصر افسانچے قارئین کے دل کو چھو لیتے ہیں وہ ہمیشہ حساس معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں۔ 

کسی بھی کتاب یا رسالہ کا سرورق اس کا پہلا تعارف ہوتا ہے۔ جسے دیکھ کر قاری کے دل میں پڑھنے کی خواہش جاگتی ہے۔۔ اس معاملہ میں اقرا کی ٹیم قابل داد ہے جو ایسے منفرد اور بامعنی سر ورق ڈیزائن کرتی ہے ۔۔

فروری 2020۔فیض نمبر:

فیض احمد فیض نمبر کے سرورق کی بات کی جائے تو وہ بظاہر سیاہ رنگ کا تھا لیکن بغور جائزہ لیا جائےتویہ بہت دیدہ زیب سرورق تھا۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فیض کے چشمہ ادب سے ابھی بھی روشنی کی کرنیں اپنی جگہ بنا کر دوسروں تک پہنچ رہی ہیں۔

جولائی 2020 ۔اسرار نمبر :

اسرار نمبر ابن صفی کی محبت میں آنے والا خصوصی شمارہ تھا۔ ابن صفی کو یاد کرتے ہوئے یہ ممکن نہیں تھا کہ سرورق میں بھی کچھ اسرار نہ چھپے ہوتے اس وجہ سے یہ سرورق باقیوں سے بالکل منفرد، مختلف اور بہت گہرا تھا۔ ایک ایسا عکس جو کسی جاسوسی ناول کا پلاٹ ہو سکتا ہے جس میں ایک کردار کے پس منظر میں کئی کردار، باتیں اور راز چھپے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔

اکتوبر 2020 :

اکتوبر کا سرورق رنگوں سے بھرا ہے اور بظاہر کچھ مکان اور ایک ہاتھ ہے ، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کاتب کا ہاتھ ہو جو تقدیر لکھ رہا ہو یا بنانے والے نے یہ تصور کیا ہے کہ دست شفا ہو تو یہ رحمت کا باعث ہوتا ہے اور بگاڑنے پر آئے تو بنی بستی بھی برباد ہو سکتی ہے۔

اپریل 2021 :

اپریل 2021 کا سرورق اپنے آپ میں خوبصورت خیال کا عکاس کہا جا سکتا ہے۔انسانیت کی سب سے بڑی خوبی ایک دوسرے کا سہارا بننا ہے جب تک انسان ایک دوسرے کے دکھ نہیں بانٹ لیتے اور ایک دوسرے کی کامیابیوں میں انہیں سپورٹ نہیں کرتے اس وقت تک ہر ترقی بے معنی ہے اس سرورق سے بطور قاری مجھے یہ سیکھ ملتی ہے۔

مئی 2021 :

انسان اپنی بقا کا خود ضامن ہو یا نہ ہو لیکن اپنے خاتمے کے لیے سب سے زیادہ بے چین خود انسان ہے انسان کا پھیلایا ہوا گند فضاؤں میں تو زہر گھول چکا ہے اب انسان نے دہائیوں سے سمندروں کو کچرا گاہ سمجھ لیا ہے اسی وجہ سے آج سمندری حیات آہستہ آہستہ مٹتی چلی جا رہی ہے ۔اور اس کی سب سے بڑی وجہ انسان ہیں ۔اس سرورق میں یہ نقشہ دکھایا گیا ہے۔

سرورق کے علاؤہ اقرا کا لے آؤٹ ، صفحات کا بیک گراؤنڈ اور فونٹ بہت دیدہ زیب ہوا کرتے ہیں ۔خاص کر مضامین اور افسانوں کے ساتھ لگی تصاویر موضوع سے مطابقت رکھتی ہیں اور کہانی کا تاثر گہرا کرتی ہیں ۔

اقرا کی ایک خامی جس پر کئی بار کہا جاچکا ہے وہ ہے پروف ریڈنگ کی کمی، جس کے باعث تحریر میں کئی غلطیاں نظر آتی ہے اور عمدہ تحریر کا تاثر خراب کر دیتی ہیں۔

   اقرا کی ایک اہم خوبی جسے شاید اکثر پڑھنے والے نظر انداز کر جاتے ہیں وہ اقرا کے ادرایے ہیں۔ صادق اسد صاحب ادرایہ میں ایسی زبان اور لہجہ استعمال کرتے ہیں کہ وہ قارئین، منصفین اور ادارے کے سرکردہ افراد کے مابین چھوٹی سی ملاقات محسوس ہوتی ہے ۔اداریہ کی زبان سلیس بھی ہوتی ہے اور خوشگوار بھی۔ ہلکا سا طنز و مزاح بھی محسوس ہوتا ہے اور کہیں نہ کہیں نوک جھونک بھی نظر آتی ہے۔ ادرایہ رسالے کی جان ہوتا ہے ۔اقرا کے ادرایے حقیقت میں رسالے میں جان ہیں کیونکہ یہ رسالے اور قاری کے مابین ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔

اقرا کے خاص نمبر قارئین کے لئے تحفہ ہوتے ہیں جن کا قاری بے صبری سے انتظار کرتے ہیں ۔

1۔ خاص نمبر ۔فروری 2020 فیض نمبر :

فروری 2020 کا فیض نمبر اقرا کا پہلا خاص نمبر تھا۔ دلکش سرورق اور فیض کی منتخب شاعری سے سجا یہ خاص نمبر ایک خوبصورت خراج تحسین کہا جاسکتا ہے۔۔رنگین اوراق اور خوبصورت فونٹ نے جہاں اس شمارے کی ظاہری خوبصورتی بڑھائی وہیں صادق اسد صاحب نے اداریہ میں فیض کے حوالے سے کہی باتوں نے اس شمارے کی اہمیت کا احساس دلایا کہ فیض رومان و انقلاب کا حسین سنگم ہیں اور شمارے کی تخلیقات ان ہی دو موضوع کی مناسبت سے منتخب ہوئی ہیں۔ 

اس شمارے میں ہما فرحین نے’’فیض: معاصرین و ناقدین کی نظر میں ‘‘" کے نام سے فیض کے بارے میں پیش کی گئی آراء کا عمدہ کلیکشن پیش کیا ۔ ان کے علاؤہ رخسانہ نازنین ،حمزہ حسینی، زید حیدر ، شیخ خالد زاہد اور پروفیسر مبین نذیر کے عمدہ افسانہ بھی اس خاص شمارے کا حصہ تھے ۔پہلا خاص نمبر ہونے کے باعث اقرا کا یہ شمارہ یادگار اور اہم ہے ۔۔

2۔خاص نمبر ۔جولائی 2020 ۔اسرار نمبر:

2020 کی ابتدا کچھ عجیب سے حالات میں ہوئی انڈیا کے سیاسی حالات اور پھر کرونا نے دنیا کو گھروں میں قید کرکے عجیب خوف میں مبتلا کرکے رکھ دیا تھا اسی سب کے درمیان کچھ تعطل سے آنے والا اقرا کا ’’اسرار نمبر‘‘ قارئین کے لئے ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا تھا۔یہ خاص نمبر اردو سری ادب کے بے تاج بادشاہ ابن صفی کے نام کیا گیا تھا۔ سری ادب کی مناسبت سے ڈیزائن کردہ سرورق دلکش اور اقرا کی ٹیم کا ابن صفی کو پیش کیا عمدہ خراج تحسین تھا ۔ بقول مدیر اعلی صادق اسد صاحب ، ’’ابن صفی کا میدان جاسوسی ناول نگاری سے کہیں وسیع تھا۔‘‘ اسی مناسبت سے اس شمارے میں افسانہ، شاعری، مزاح ہر رنگ شامل کیا گیا تھا ۔رخسانہ نازنین، فیصل عادل اور صادق اسد کے دل گذار افسانوں کے ساتھ جبین نازاں کے پرمزاح انشائیہ ، کرونا پر لکھے خالد زاہد شیخ کا عمدہ مضمون اس خاص نمبر میں شامل تھے۔ اس کے علاؤہ ابن صفی پرلکھا مضمون "’’صدیوں کے راوی‘‘ ابن صفی کو پیش کیا گیاہمارا خراج عقیدت تھا ۔ابن صفی کے بارے میں ان کے معاصرین اور اردو ادب کے نامی گرامی شخصیات کی آراء اس شمارے کی ہائی لائٹ کہی جاسکتی ہے ۔

3۔ خاص نمبر ۔دسمبر 2020 ۔سالنامہ :

اقرا کا یہ تیسرا خاص نمبر ایک خاص سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔۔اقرا کے پہلی سال گرہ کے موقع پرشائع ہونے والا یہ ضحیم شمارہ تھا ۔اس شمارے میں اقرا کے ڈیجیٹل پورٹل کا اعلان بھی کیا گیا تھا ۔۔سرورق پر اقرا کے ریگولر لکھاریوں کو خوبصورت انداز میں یاد کیا گیا۔ اور ایک سال گرہ کے خوشگوار رنگوں میں ڈوبا ہوا لے آؤٹ اور رنگارنگ کی تخلیقات سے مزین یہ ایک یادگار شمارہ تھا۔  نثر میں افسانہ ،انشائیہ ، مضامین، ترکی کا سفر نامہ اور رخسانہ نازنین پر لکھے خاکہ کے علاؤہ اطہر کلیم صاحب کا پینل ڈسکشن کے انداز منعقد کیا گیا ادبی مباحثہ سبھی کچھ شامل تھا ۔ اس شمارے میں شاعری کے لئے گوشہ سخن مختص کیا گیا تھا جس میں جدید اور قدیم شعرا کی نعت، غزلیں اور نظمیں شامل رہیں ۔اس شمارے کی سب سے اہم چیز اس کا گوشہ قارئین تھا جس میں قارئین نے بھر پور شرکت کی اور اسے یادگار بنادیا۔ 

4۔ خاص نمبر مارچ 2021 ۔خواتین نمبر :

’’وجود زن سے کائنات میں رنگ۔۔‘‘ اقرا کا چوتھا اور سال2021 کا پہلا خاص نمبر خواتین کے نام تھا ۔خاص نمبر کی مناسبت سے بنے خوبصورت سرورق اور مضامین سے مزین یہ نمبر قارئین میں کافی پسند کیا گیا تھا ۔۔اس شمارے کی ابتدا ثمرین فردوس کے مضمون ’’وجود زن سے ہے ۔۔‘‘سے ہوئی جس میں انہوں نے اسلام میں عورت کے مقام پر روشنی ڈالی ہے ۔اس کے علاؤہ حذیفہ عاصمی نے آج کے معاشرے میں خواتین کو در پیش مسائل کو اسلامی تناظر میں بیان کیا ۔محمد مصعب صحرائے عرب سے پہلی شہید خاتون حضرت سمیہؓ پر ایمان افروز مضمون پیش کیا تو رخسانہ نازنین نے اپنے افسانہ شمع کے ذریعہ عورت کا ایک خوبصورت رخ دکھایا ہے۔ ہمیں بھی اس تاریخی شمارے میں’’ "ذرا نم ہو تویہ مٹی۔۔‘‘ لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا ۔اس شمارے کی ایک اور خاص چیز مباحث اسرار تھا۔

5۔خاص نمبر  جولائی 2021 - ساغر و اسرار نمبر :

اقرا کا پانچواں خاص نمبر اپنے آپ میں بڑی انفرادیت لئے تھا۔ ساغر صدیقی اور اسرار ناروی جیسے دو مختلف انداز کے شاعروں کے نام پر اس خاص نمبر کا نام رکھا گیا۔ اسرار ناروی مشہور زمانہ ابن صفی کی وہ قلمی شخصیت ہے جو زندگی میں اپنا صحیح مقام نہیں پاسکی اسی طرح ساغر صدیقی وہ عظیم شاعر ہیں جنہوں نے اپنے اشعار ایک سگریٹ کے عوض بھی بیچے ہیں ۔اس شمارے کی ابتدا مدیر اطہر کلیم انصاری کے ایک اس خوبصورت انتساب سے ہوئی  ۔۔

’’ان دو شخصیات کے نام جنھوں نے مجھے جرم اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حوصلہ دیا ۔۔‘‘

اس خاص شمارے میں ساغر صدیقی پر لکھے زیبا خان کے معلوماتی مضمون کے علاؤہ ہمارا لکھا مضمون " ’’رہ گزر کے چراغ ہیں ہم‘‘ " نامی مضمون بھی شامل تھا جو ٹائٹل کی مناسبت سے اسرار ناروی اور ساغر صدیقی کی زندگی اور شاعری کا متوازی جائزہ ہے ۔ان کے علاؤہ صائمہ نور، رخسانہ نازنین ،عالیہ فراز، محسن ساحل سمیت کئی عمدہ افسانہ نگار شامل تھے ۔حمزہ حسینی اپنے سفر نامہ اور صائم مسعود ڈپٹی نذیر احمد کے ساتھ گوشہ گہر میں موجود تھے ۔نثر اور شاعری کے مختلف رنگوں کو دلفریب انداز میں پیش کرتا یہ خاص نمبر قارئین کے لئے ایک خوبصورت تحفہ تھا ۔

6۔خاص نمبر  دسمبر 2021 ۔سالنامہ و غالب نمبر:

اقرا کا چھٹا خاص نمبر صرف خاص ہی نہیں خاص الخاص کہا جاسکتا ہے۔ اقرا کی دو سالہ تکمیل کے علاؤہ یہ سلور جوبلی نمبر بھی تھا اور غالب نمبر بھی ۔مرزا غالب اردو شعر و نثر کی ایک ایسی عظیم شخصیت کا نام ہے جن پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ مزید کچھ کہنا سننا سورج کو چراغ دکھانے جیسا ہے، لیکن خراج عقیدت پیش کرنےکی روایت کو قائم رکھتے ہوئے یہ شمارہ ان کے نام کیا گیا ۔ عبد العلیم نے اپنے قلم کی مہارت دکھاتے ہوئے غالب اور اقرا دونوں کے لئے خوبصورت نظمیں پیش کیں۔ ہم نے غالب پر ایک تحقیقی مضمون لکھ کر اپنی غالب سے عقیدت کا ادنی اظہار کیا۔ غالب نمبر کے گوشہ گوہر میں صائم مسعود صاحب کا داغ دہلوی پر لکھا گوشہ گہر سونے پر سہاگہ محسوس ہوتا ہے۔ رخسانہ نازنین ،محمد مصعب ،جبین نازاں جیسے ریگولر لکھاریوں کے علاؤہ کئی نئے نام اقرا سے جڑے نظر آئے جن میں ایک ذیشان انصاری بھی تھےجنھوں نے اپنے قلم سے قارئین کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیری اور محمد ریاض نے اردو اصناف میں سائنس کے حوالے سے معلومات میں اضافہ کیا۔ ۔

7۔ خاص نمبر ۔۔مئی 2022 شجاع کامل نمبر :

اقرا نے  2022 میں ایک اور بہت ہی خاص نمبر پیش کیا ہے ۔۔’’شجاع کامل نمبر ‘‘۔سید شجاعت علی المعروف پروفیسر شجاع کاملؔ کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتا یہ نمبر اپنی مثال آپ ہے۔ اس میں جہاں ادب کی جید شخصیات نے پروفیسر شجاع کامل کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے آشنا کیا وہیں پروفیسر صاحب کی اپنی تحریروں نے ان کا بخوبی تعارف کروایا ۔اطہر کلیم کے دل سے لکھے انتساب سے لے کر آخری تحریر تک یہ خاص نمبر قاری کو باندھے رکھتا ہے ۔

پروفیسر شجاع کامل ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ افسانہ نگار،محقق اور معلم کئی شعبوں میں ان کی دسترس ہے، ان کے علمی و ادبی قد کاٹھ کے بارے میں پڑھ کر انسان ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ان کے بارے میں ان کے قریبی اور بےتکلف دوست نور الحسنین نے بہت ہی پر مزاح اور دلچسپ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ "’’پوت کے پاؤں پالنے میں‘‘،" شجاع صاحب کی شخصیت کے کئی پہلووں کی جانکاری ملتی ہے ۔سید عباس ، ڈاکٹر شیخ زبیر احمد اور وحید امام صاحبان نے جس باریک بینی سے شجاع صاحب کی ظاہری و باطنی شخصیت کی تصویر کشی کی ہے اسے پڑھ کر ہر قاری ان کی زندگی کی جدو جہد ،ان کے ادبی سفر اور ان کی کارہائے نمایاں سے واقف ہو جاتا ہے۔شجاع صاحب کی ان گوناگوں خوبیوں کا احاطہ شیخ علیم اسرار نے اپنے منظوم سپاس نامہ "شیشہ گری کا منکر" میں بہت خوبی سے کیا ہے۔

  ان مضامین کے علاؤہ اس خاص نمبر میں شجاع کامل صاحب کا فہیم صدیقی پر لکھا مضمون اور دو افسانے بھی شامل ہیں۔ "بری بات اور "سمندر کنارے اگا سورج" دونوں ہی انسانی نفسیات کو بیان کرتے عمدہ افسانے ہیں ۔

اقرا کا یہ شجاع کامل نمبر ایک بڑی کامیابی کہا جاسکتا ہے  ۔ یہ ایک نئی روایت کی ابتدا ہے کہ ہمیں اپنے درمیان موجود ادب کی اعلی شخصیات کو ان کا مقام اور عزت دینی چاہیے ۔اس کے علاؤہ اقرا کی اعزازی ہارڈ کاپی نے اس خاص نمبر کی اہمیت اور بڑھا دی۔

ماہنامہ اقرا کے ساتھ بطور مصنفین وقت بہت اچھا گزرا ہے۔لکھنے والوں کے لیے ادارے کی پالیسی بڑی واضح رہی ہے۔ یہاں لکھنے والے دلیل و حجت کے ساتھ کھل کر تنقید کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تین سال میں اکثر جب جب ادارے نے لکھنے کا موقع فراہم کیا اس وقت ساتھ ہی قلمی آزادی بھی دی ۔ہمیشہ تعریف سے زیادہ تنقید کو اہمیت دی۔قارئین اور مصنفین کی آراء کو نہ صرف سنا بلکہ ان پر مثبت رد عمل بھی دیا۔ اسی وجہ سے بطور مصنفین ادارے کے ساتھ شاندار تعلق رہا ہے ۔

مختلف خاص نمبرز اور سالناموں میں ادارے نے مضامین کا جب جب کہا اس وقت بڑی خوش دلی سے ادارے کے لیے لکھا ۔

اردو ادب میں لکھنے والے اور ان کو چھاپنے والے ایک دور میں کثیر تعداد میں ہوا کرتے تھے۔ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہندوستان کے طول و عرض میں رسالے چھپا کرتے تھے اور ان کو پڑھنے والوں کا ایک وسیع حلقہ ہوا کرتا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ پہلے اردو زبان کی اہمیت کم ہوتی گئی اس کے بعد کاروباری مراکز نے ادبی رسالوں کو کمرشل بنیادوں پر نہ چلا کر آہستہ آہستہ ان کی افادیت کو ختم کر دیا ہے۔

بڑے بڑے رسالے اور ادارے وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑ گئے۔اسی طرح جدید تقاضوں سے روگردانی کی وجہ سے بھی رسالوں کا وجود خطرے میں پڑا ۔ آج آن لائن اور ڈیجیٹل دور میں پرانے طرز کے بچے کھچے رسالے بھی ختم ہو رہے ہیں۔ اس وقت نیا رسالہ قائم کرنا اور اس کو معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے چلانا بھی مشکل تر ہو چکا ہے۔

اس دور میں اقرا جیسے رسالے کو شروع کرنا پھر اس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا۔یہاں اچھے، معیاری مصنفین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر لانا اور موبائل لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر پر لوگوں کو رسالے پڑھنے پر آمادہ کرنا آسان مرحلہ نہیں تھا لیکن اقرا کی ٹیم مینجمنٹ اور افراد کی محنت نے اس ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور آن لائن دور میں اس مشکل ٹرینڈ کو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بہتر کیا۔ اور مزید بہتری کی گنجائش ہمیشہ ہی ہوتی ہے ۔

اقرا میں جن چیزوں کی کمی محسوس ہوتی ہے وہ مزاح اور شاعری ہے ۔ اقرا میں شاعری کے لئے ایک گوشہ مختص ہونا چاہیے جیسے چند ابتدائی شماروں میں تھا ۔اقرا میں نئے لکھنے والوں کو موقع دیا جاتا ہے یہ بہت عمدہ بات ہے اور ان نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہیے اور ساتھ ہی ان کی رہنمائی بھی ہو، تاکہ ان کے قلم میں بہتری آئے ۔یہ مشورے اقرا ٹیم کے ذریعہ بھی ہوسکتے ہیں اور قاری کی آرا سے بھی ۔

ان کے علاؤہ آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق اقرا کو سوشل میڈیا میں اپنی موجودگی درج کروانی چاہیے اور فیس بک پیج یا اس طرح کے ذرائع سے قارئین تک پہنچنے اور ان کی آراء سننے کا اہتمام بھی ہونا چاہیے ۔

اقرا کے تین سال کامیابیوں کی داستان ہیں تنقید کے بہت سے مواقع پڑھنے والوں کو مستقبل میں بھی ملیں گے۔ آج بھی رسالے کے اندر بہت سے نئے سیکشنز کی ضرورت ہے اور بہت سے نئے مصنفین کو یہاں چھاپنے اور جگہ دینے کی ضرورت ہے، لیکن اس کے باوجود اقرا کا سفر نہایت عمدگی اور بہتری سے جاری ہے۔ یہ سفر صرف ایک ادارے یا چند اشخاص کا نہیں ہے بلکہ یہ اردو ادب میں ایک نئے ٹرینڈ کو لانے کی مشکل ترین کوشش تھی۔ شروعات میں قارئین کے ساتھ بہت سے مصنفین بھی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ آن لائن رسالہ لانا دانشمندی ہے یا نہیں ۔سبھی پہلے دن سے اس متعلق خاموش تھے کہ آن لائن رسالہ کب تک لایا جا سکتا ہے ۔

کاغذ کی خوشبو محسوس کرنے والے اس نئی کوشش کا حصہ بننے کے باوجود کہیں نہ کہیں اس کو مکمل قبول نہیں کر پا رہے تھے، لیکن ادارے کے ذمہ داران نے ہر موسم میں ہر حالت میں رسالے کو ایک منظم انداز میں شائع کیا۔ پروفیشنل اصولوں کو مدنظر رکھا اسی وجہ سے اب ہر ماہ قارئین کو اس رسالے کا انتظار رہتا ہے۔

٭٭٭٭٭



Three years journey of online urdu magazine IQRA Monthly. Written by Tabassum Hijazi and Mirza Sohaib Ikram. 


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.