Type Here to Get Search Results !

دوبدو



از  :  عنقا سدید  /  اطہر کلیم

 ماہنامہ اقراءکے نئے سلسلے ” دوبدو “ میں ملئے عنقا سدید بطور ” عالمگیر طبا طبائی“ سے۔۔

میزبان             :        اطہر کلیم

مہمان کردار :        عالمگیر طبا طبائی


اطہر کلیم :- السلام علیکم! میں ہوں آپ کا میزبان اطہر کلیم۔۔

”دوبدو“ میں آج ایک ایسی شخصیت میری مہمان ہے جو خود کو ”ادیب“ کہتے ہیں۔۔ کیوں کہتے ہیں؟ آئیے ان سے ہی جانتے ہیں۔۔ 

عالمگیر طبا طبائی:- ہیں۔۔۔ ہیں ۔۔۔ کیا کہا دوبدو؟ ایسے لگتا ہے جیسے آپ کو ہم سے بدبو محسوس ہو رہی ہو۔نام تو ڈھنگ کا رکھو میاں۔ یہ ادیب کہلاتے ہیں کیا ہوا بھلا۔کہلاتے تو لوگ چھٹن کے ابا یا دولہا بھائی ہیں۔۔ادیب ہوتا ہے۔۔ ہم تو ادیب ہیں اور وہ بھی ریختہ کے۔ ہمیں ”خادمِ اردو“ کہیے ، آخر عمر گزری ہے اس دشت کی سیاہی میں۔


اطہر کلیم :-  یہ خادم اردو کیا چیز ہے؟ اور یہ لقب آپ نے خود اختیار کیا ہے یا یہ بھی آپ کو لوگوں نے دیا ہے؟

عالمگیر طبا طبائی:- خادمِ اردو نہیں سمجھتے تم۔عجیب گھامڑ ہو۔امے خادمِ اردو کا مطلب اردو کا خادم۔۔۔۔ہم سات پشت سے اردو کی خدمت کر رہے ہیں۔۔تیس کتابیں لکھ ماری ہیں۔۔۔ہم نے محبوب کی زلفوں میں منہ دے کر ٹسوے نہیں بہائے اور نہ ہم کتوں کی نفسیات پر لگے رہے۔ صفحات کالے کرتے کرتے بال سفید ہوگئے ہمارے۔ اور ہمیں لقب دے، ایسی کس کی مجال ہے ؟۔ہم جو کرتے ہیں خود کرتے ہیں اب بھلا وہ لفظوں کے نقطوں پر سر کھپانے والے بڈھے کیا ہمیں سمجھیں گے اور لقب دیں گے۔یہ ہم ہیں جو دوسروں کو لقب عطا کرتے ہیں۔تم انٹرویو کرنے دوڑے آئے ہو اطہر میاں ، کچھ ہمارے بارے میں ریسرچ بھی کر آتے تو شان کم نہیں ہو جاتی۔


اطہر کلیم :- آپ نے کہا آپ تیس کتابوں کے مصنف ہیں۔۔ کس موضوع پر لکھتے ہیں آپ۔۔؟ نیز مناسب سمجھیں تو نمونے کے طور پر اپنی تخلیق کا کچھ حصہ قارئین کے گوش گزار کریں۔۔

عالمگیر طبا طبائی:- ہم نے کہا ہے تو یقیناً تیس کتب کے مصنف ہی ہیں۔تمہیں کوئی شک ہے کیا۔جو کرید کرید کر تیس تیس کر رہے ہو۔تیس بھی کیا ہے اگر ہمارے دوسرے مشاغل نہ ہوتے تو آج پچاس کتب ہوتیں۔ اور۔۔۔یہ پوچھو کہ ہم کیا نہیں لکھتے۔ہم نے کس میدان کو چھوڑا ہے۔ہم ویسے تو ہر موضوع پر قلم اٹھانا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں لیکن سنجیدہ موضوعات ہماری خاصیت ہیں۔۔ ابن بطوطہ کو پڑھا ہے تم نے۔رشد کے ہاں سے گزر ہوا ہے کبھی۔؟؟


اطہر کلیم :-  حضور دھیرج رکھئے، آپ تو غصہ ہوگئے۔۔ ایک ادیب کو اتنا گرم دماغ نہیں ہونا چاہئے۔۔

عالمگیر طبا طبائی:- دھیرج ہی ہے تمہیں ہم میں کیا غصہ نظر آیا ہم کوئی گلی محلے کےلونڈے ہیں جو غصہ کریں۔ ہم تو بڑے ٹھنڈے مزاج کے ادیب ہیں ورنہ تمہاری اس کج روی کے بعد یہاں سے چلے جانا مناسب ہوتا۔ ہمارے جلال کو غصہ کہہ کر خادمِ اردو کی توہین کے مرتکب ہوئے ہو۔غصہ دیکھو گے میاں۔کہو تو دکھلا دیں۔ ہمیں بلایا ہے تو پہلے ہمیں پڑھا ہوتا ہم پر لکھی کتب کا مطالعہ کیا ہوتا تو تمہیں معلوم ہو جاتا کہ تم کتنے خوش بخت ہو جو ہم سے مخاطب ہو۔

ہم افسانہ گری کرتے ہیں لیکن کالی پیلی کھڑکی دروازے اپنا موضوع نہیں۔ اس بازار سے گزرتے ہیں تو دین و دل بچا کر نہیں رکھتے۔بس گذر جاتے ہیں ۔ اور یہ لو نمونہ بھی پیش کرتے ہیں آخر کو ہزاروں صفحات لکھے ہیں۔یہ پہلا نمونہ ہمارے افسانے ” شب دیجور کا گرہن“ سے پیش کرتا ہوں۔۔۔

” قمر الدین نے اس بازار میں آنکھ کھولی تھی وہ وہاں کی مشہور رقاصہ جمن بائی کا اکلوتا فرزند تھا۔اس کی پیدائش سے قبل جمن بائی کا کوٹھا ’ چمپا پور‘ کا سب سے پر رونق شمع افروز خدمت کدہ تھا۔لیکن قمرو کے ’ گرہن‘کے بعد یہاں ایسی نحوست چھائی کہ کسی لڑکی نے یہاں جنم نہ لیا۔جمن بائی دل ہی دل میں اس مصیبت مارے ٹھنڈے چاند کو کوستی تھی جس کی وجہ اس گھر میں گاہک کم اور بل زیادہ آنے لگے تھے۔قمرو نہ ڈھنگ کا طبلچی بنا اور نہ اسے’ دَلا ‘بننا راس آیا۔

جس کوٹھے پر لڑکی نہ ہو وہاں گھنگھرو نہیں بجتے اور جہاں گھنگھرو خاموش ہو جاتے ہیں وہاں تمدن دم توڑ دیتا ہے۔ گھر کا یہ بجھا چراغ روشن ہونے سے قبل ہی یخ بستگی کا شکار رہا تھا کیونکہ اس بازار میں پازیب کی کھنک سے رات معطر ہوتی ہے کسی ستم رسیدہ مایوس ’ دَلے ‘کی آہوں سے نہیں۔“

اور دیکھو میاں ہمارا دوسرا رنگ ہمارے انشائیہ ”مرغے کی اذاں اور“ سے۔ 

”مرغ کی بانگ درا سے صبح کا آغاز ہوتا ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ مرغ صرف اذان تہجد پر ہی کیوں مامور ہوتے ہیں ، باقی اذانیں اس کے مرحوم ابا حضور دیں گے کیا۔۔۔؟؟

صبح صبح اگر کڑاہی کا رواج ہوتا تو مرغِ سلیم کی یہ بانگ تو رک جاتی۔ لیکن اپنے ہاں مسلہ یہ ہے اتنی صبح مرغ کھائے کون ، اسی وجہ سے صدیوں سے مرغ بانگ درا پر مامور ہیں اور مرغیاں انڈے دینے پر ۔۔“

اب بتاو برخودار کبھی ایسی اعلی پائے کی نثر دیکھی ہے پچھلے پچاس سالوں میں۔۔۔؟؟


اطہر کلیم :-  خیر مجھے یہ بتائیے کہ آپ کس عمر سے باقائدہ لکھنے لگے تھے اور اب تک کا ادبی سفر کیسا رہا ہے؟

عالمگیر طبا طبائی:- یہ سوال ہے کہ کس عمر سے لکھنا شروع ہوا۔بس یوں سمجھو کہ قلم اور قرطاس ہماری گھٹی میں پڑی تھی۔جب دوسرے بچے کنچے کھیلتے تھے ہم اس وقت نیشا پور کے قلی قطب شاہ کو پڑھا کرتے تھے۔ بہت چھوٹے تھے ہم شاید نو سال کے جب ہم نے ادیب بننے کا فیصلہ صادر فرما دیا تھا۔ ہمارے دوست یعقوب آتش کے کنچوں کی چوری کا ہم پر الزام لگا۔سوچو ہم پر الزام۔۔بس ہم نے سارے کھیل چھوڑ دئیے اور اپنا پہلا افسانہ”کنچوں کی چوری“ لکھا جو ماہنامہ ترچھی نظر میں چھپا تھا۔ یوں سمجھ لو ہم کبھی چھوٹے نہیں تھے۔ہم سدا سے بڑے تھے۔یاد رہے خادمِ اردو کبھی چھوٹا نہیں ہوتا۔۔

اور میاں ہم تو ساری عمر سفر سے عاجز رہے ہیں۔سفر میں اگر رہبر خضر ہو تب بھی ہم سکندر نہیں بنے۔ ہم نے جو لکھا وہ چارپائی اور بستر پہ براجمان ہو کر لکھا ہے مگر میاں تم سفر کا پوچھ رہے ہو۔ہمارا ادب اتنا سستا اور غیر معیاری نہیں کہ وہ دشت کی سیاحی کا محتاج ہو۔


اطہر کلیم :-  بزرگوار! ادبی سفر کا پوچھا تھا۔۔۔ خیر چھوڑیے۔۔ یہ بتائیے کہ موجودہ دور میں لکھے جارہے افسانوں کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ نیز افسانچہ آپ کی نظر میں کیا ہے اس پر بھی ذرا روشنی ڈالئے۔۔

عالمگیر طبا طبائی:-

کس سے کہوں کہ کیا ہے سفرِ ادب بری بلا ہے 

مجھے کیا برا تھا لکھنا اگر دو چار بار ہوتا 

دیکھو میاں۔! ہم نے احوال سفر ہی بتایا ہے ، منڈی میں جانوروں کے بھاو¿ نہیں بتائے۔تم کو کیوں لگتا ہے کہ سوال کے بعد جواب بھی تمہاری منشا سے دیا جائے۔ موجودہ دور جگالی کا دور ہے اس دور میں کہاں پر کچھ اچھا ہو رہا ہے جو تم افسانوں سے توقع کیے بیٹھے ہو کہ کچھ کمال ہوگا۔ قحط سالی کا دور ہے۔ صرف زمین بنجر نہیں ہو رہی اب تو ذہن بھی سوکھ گئے ہیں۔کہاں وہ دور تھا کہ ایک سے بڑھ کر ایک افسانہ لکھا جاتا تھا اور آج کے نووارد تو کہانی اور افسانے کے فرق کو نہیں جانتے ، وہ پنچ لائن کو مضمون کی پانچویں سطر سمجھتے ہیں۔کیا کہوں بس گدھوں کا ایک ریوڑ ہے۔اب تو کتابیں لادنا بھی فیشن نہیں رہا۔ایک وقت تھا کچھ دکھاوا تو تھا کہ مصنف صاحب کبھی طالب علم بھی تھے آج کل تو لگتا ہے مطالعہ شیر خوارگی کے دوران ہی مکمل ہو جاتا ہے۔کتاب پڑھنے سے قبل چھپوانے کا جو نشہ چڑھا ہے اس سے اب قاری کم اور مصنفین بڑھ گئے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب ہر قاری کی دس دس کتب ہوں گی اور ایک کتاب کو ایک قاری بھی میسر نہیں آئے گا۔ گدھوں کی ریس میں حصہ لینے والے گھوڑے کیسے بن سکتے ہیں۔ افسانوں کے موضوعات دیکھو تو لگتا ہے جیسے لکھنے والے لکھنے کے سوا ہر کام جانتے ہیں۔

ایک وہ وقت تھا میاں۔تقاریب کے لیے موٹر کاروں کی لائنیں لگ جاتیں تھیں اور پھر وہ وقت بھی آیا جب بس لائنیں ہی ہمارا مقدر بن گئیں۔ بجلی کے بل کی لائن ، گیس کے بل کی لائن ، بچوں کی اسکول فیس کی لائن ، آٹا، چینی، گھی کی لائن۔ہمیں تو لگا جیسے ہم خادمِ اردو کی جگہ خادمِ لائن ہوں۔ تم افسانوں کا پوچھتے ہو۔کیا یاد دلا دیا۔ایک وہ دور تھا جب افسانے اور افسانہ نگاری کی بڑی مانگ تھی اب تو صرف ہمارے ماتھے پر عمر رسیدہ مانگ رہ گئی ہے۔ آج کل کے افسانوں کو ہم ٹیڑھی آنکھ سے دیکھتے ہیں ، سچ پوچھو تو دونوں آنکھوں سے دیکھنے کا حوصلہ کہاں۔

افسانچے کا کیا پوچھتے ہو ، یہاں تو جو آدھا درجن نسخے تحریر فرما چکے ہیں وہ خود اس روایت سے آشنا نہیں۔ ان کے افسانچے روزنامچے زیادہ لگتے ہیں۔ روشنی کہاں کہاں ڈالوں ، اندھیرا رہنے دو عیب چھپا لیتا ہے ، روشنی میں تو دیکھو گے کہ ڈائجسٹوں میں معیار نہیں صنفِ نازک چلتی ہے۔ لکھاریوں کے دماغ ختم ہو جاتے ہیں صفحات کو کالک سے بھرتے مگر جیب مفلس کی قبا کی طرح پھٹی رہتی ہے۔ جہاں مزدور کی دیہاڑی مصنف کے فن سے بڑھ جائے وہاں کاہے کا افسانہ اور افسانچہ۔


اطہر کلیم :-  دیکھئے ہمیں اس پروگرام کے لئے ایک مختص وقت ملتا ہے۔۔ میں چاہتا ہوں آپ موضوع سے نہ ہٹیے۔۔ میں آپ سے افسانہ پوچھ رہا ہوں اور آپ بجلی، گیس، آٹا، چینی لے بیٹھے۔۔ براہ کرم موضوع پر ہی رہئے۔۔ یہ بتائیے آپ نے مطالعہ کی اہمیت کا ذکر کیا ہے۔۔ خود آپ نے کن مصنفین کو پڑھا اور آپ کو کون زیادہ پسند آیا؟

عالمگیر طبا طبائی:- میں صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس قوم کو اختصار لے ڈوبے گا۔۔بتاﺅ تو ذرا، وقت بچا کر کون سے نئے دفینہ کھود رہے ہو۔ یہ قوم ادب فروش ہے اسے ہماری قدر ہی نہیں۔یہ افسانے سے افسانچہ نکال بیٹھے ہیں اور اب سو لفظی جملوں کو کہانی بنا دینے پر بضد ہیں۔جب انٹرویو کا شوق جگر لالہ میں موجزن ہوا تھا تب وقت کی قلت کا سوچنا چاہیے تھا اب ہم جیسے محبانِ اردو کو دعوت دیں گے، ہزاروں سال کی تاریخ کا نچوڑ تو سننے کو ملے گا۔ابھی تو ہم شروع بھی نہیں ہوئے اور تمہیں کمیابیِ وقت نے آن گھیرا ہے۔ ایسے قلیل مدتی تو اب الیکشن ہوتے ہیں، انٹرویو تو سکون مانگتا ہے میاں۔علم کا سمندر سامنے ہے اور تمہیں جانے کی ضد نے پکڑ لیا ہے۔ خیر جاو بھائی یہاں کون سا تم انشائیہ کے پھول کھلا رہے ہو۔

  ویسے پسند تو ہمیں ہم خود ہیں۔ ہم نے خود سے زیادہ کسی کو نہیں پڑھا۔ اب ہم یہ بتانے بیٹھے کہ کس کس کو پڑھا ہے تو بات وہاں سے شروع ہوگی جب آپ جناب پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ، منٹو کا ذکر آئے گا کرشن چندر ، بیدی ، عصمت ، سجاد اور سینکڑوں نام سامنے آئیں گے۔ پھر ہمیں بتانا ہوگا کہ منٹو اور کرشن چندر میں کیا فرق تھا۔ کلاسیکل انداز کیا تھا۔ کون کہاں سے چراتا رہا اور یہ سب ایک انٹرویو کے بس کی بات نہیں ہے۔۔ پھر تمہیں تو اتنی جلدی ہے جیسے سہاگن جوڑے میں بس پیا دیس جانے کو تیار بیٹھی ہو۔اور پوچھنا تو تمہیں یہ چاہیے کہ ہمیں کس کس نے پڑھا ہے۔انٹرویو ہمارا ہے تو ہمیں جانو ، کیا ماضی کے تھکے ہارے مردے نکال لاتے ہو۔جو ہم نے اردو کو دیا ہے اس کا ذکر کرو۔ اس کمر خمیدہ اور نگاہ ترچھیدہ نسل کو ہمارا بتاو۔ ہم سے بڑا افسانہ نگار کہیں دیکھا ہے تو بتاو۔ ہم نے کس موضوع پر نہیں لکھا کس سے انصاف نہیں کیا۔ 

تم ہو کہ وہ دھان کے کاشتکار کی طرح بس ماضی کی فصل میں پانی ڈال رہے ہو۔وہ لوگ آج کہاں ہیں۔ آج ہم ہیں اور ہمارا دور ہے۔ ہمارے افسانے مریخ کے بچھو ، طلسمی بائی ، ائیر کولر کی کمزوری ، کھڑکی توڑ بلما پڑھو ۔ان جیسا رنگ تمہیں اردو تو کجا فارسی، ہندی، سنسکرت اور انگریزی میں بھی نہیں مل سکتا۔ ہم نے اردو زبان کو نئے اسلوب سے روشناس کروایا ہے۔ مگر افسوس آج کے لونڈے اختصار کا ایسا شکار ہیں کہ وہ کتاب کو سرورق دیکھنے تک مرکوز رکھتے ہیں۔ وقت نکالو اگر ہم سے کچھ حاصل کرنا ہے۔۔ کیا غالب سے چند سوالات میں بات مکمل ہو سکتی تھی۔ اور تم چلے آئے چند ٹھس سوالات لے کر ، ہماری تلاش ہے تو اس کے لیے ریاضت کرو ، محنت کرو۔ مجھے حیرانی ہے تمہیں اس فیلڈ میں آنے کا مشورہ کس نالائق اعظم نے دے دیا۔ ویسے جو ادب کا حال ہے اب ہم جیسے ادیب بھی پرچون کی دکان کھول لیں گے۔


اطہر کلیم :-  چھوڑیئے ان باتوں کو۔۔ مجھے یہ بتائیے کہ شاعری سے بھی کچھ شغف ہے یا صرف نثر ہی پسند ہے؟ اور خدارا موضوع سے نہ ہٹئے۔۔۔

عالمگیر طبا طبائی:- ہم کون سا باتوں کو پٹارہ کھول کر بیٹھے ہیں۔ہماری طبیعت میں ویسے بھی خاموشی اور تنہائی بھری پڑی ہے۔ وہ شعر ہمارے لیے ہی ہے۔

میں خاموش رہنے کا عادی ہوں

اسی لیے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں

اب خود سوچو ہم چپ رہیں تب بھی آستین سے لہو بول اٹھتا ہے۔سچ کہیں تو ہم بولنا کہاں چاہتے ہیں مگر ہم چپ بھی کیسے رہیں۔آج کل کے اشعار دیکھے ہیں۔۔ لگتا ہے جوتوں کپڑوں اور جیولری کے اشتہارات ہیں۔ یہ پہنو تو اچھی لگتی ہو ،وہ پہنو تو اچھی لگتی ہو۔اب سوچو چچا آج زندہ ہوتے تو مر کیوں نہ جاتے اس نسلِ بد کے دیوان دیکھ کر۔پہلے محبوب کی زلفوں کی باتیں ہوتی تھیں کچھ گلے شکوے کچھ خیال ہوتے تھے آج کل تو شاعر بھی بزنس مین ہو گئے ہیں وہ شاعری میں بھی مارکیٹنگ کرتے ہیں۔ ہم ایک بار مشاعرے میں گئے۔ کیا بتائیں میاں ایک توسننے والے چغد۔۔ اور دوسرا سنانے والے ایسے شاعر جو دہلی کے نہیں کسی گلی کے شاعر لگتے تھے۔ ہمارا تو دلِ ناتواں ایسا اچاٹ ہوا کہ ہم نے چچا کی روح سے معافی طلب کی اور وہاں بس ایک شعر وہ بھی سرقے کا سنا کر نکل لیے۔تم بھی سنو۔ 

سنا ہے کہ دلّی میں الو کے پٹھے 

رگ گل سے بلبل کے پَر باندھتے ہیں

اب شعر کسی کو کیا سمجھ آتا بس ہم ان بے دال کے بودم چھوڑ کر نکل لیے۔ 

پسند تو ہمیں اب کوئی نازک اندام حسینہ بھی نہیں رہی نئے دور کی شاعری خاک پسند ہوگی۔ آج کل حلق اور قبا دونوں چاک ہوں تو مشاعرہ لوٹا جاتاہے۔ پہلے ادبی لٹیرے ہوا کرتے تھے جو محفل مشاعرے، مجلسیں لوٹا کرتے تھے۔ آج کل جیب کترے ، شعر چور ، نثر خوار، انشائیہ میں نقب زنی کر کے لوٹ مار کرنے والے شاعر و ادیب ہیں۔ ابھی چند دنوں کی بات ہے ایک شاعر صاحب کا تعارف کچھ یوں سنا کہ ”سگِ ادب“۔ ہماری زبان تک آئی بات بھلا کہاں رکتی تھی فوری کہا لعنت ہو تمہاری پچھلی تین اور اگلی دو نسلوں پر۔تم خود کو سگِ ادب کے ساتھ ”ابنِ کلب“ بھی لکھا کرو اور بس شاعری پر اتنا رحم کھاو کہ اس پر اپنے پنجے آزمانہ چھوڑ دو۔


اطہر کلیم :-  دیکھیں آپ پھر باتوں کو طول دے رہے ہیں۔۔ بہتر ہے کہ موضوع پر ہی رہیئے۔۔ مجھے لگ رہا ہے آپ کو اپنے علاوہ کچھ اور اچھا ہی نہیں لگتا۔۔ اسلئے کسی اور کے بارے میں پوچھنا ہی فضول ہے۔۔ یہ بتائیے کبھی خود بھی شاعری کی ہے؟

عالمگیر طبا طبائی:-ہم تمہیں سمجھ نہیں سکے کہ تم کس قبیل سے ہو۔اگر بولنا ناگوار گزر رہا ہے تو کسی نایاب گونگے کا انٹرویو چھاپ دیتے۔تم سوال پر سوال کرتے جاتے اور سامنے سے بس غوں غوں کہ صدا سنتے۔ہمیں تو بڑے بڑے جغادری چپ نہیں کروا سکے تم کس کھیت کی مولی اور لیموں ہو۔ ہم ابھی تو بولنا شروع بھی نہیں ہوئے اور تم ہو کہ بھاگ رہے ہو۔ہم ان مصنفین میں سے نہیں ہیں جو چپ کر جائیں۔چلو تمہاری مان لیتے ہیں۔موضوع پر رہتے ہیں بتاو موضوع کیا تھا اس انٹرویو کا۔۔۔ آئیے ملتے ہیں عالمگیر طباطبائی سے۔ تو بھائی تمہارے اس بے وقت کی راگنی میں طباطبائی کہاں ہے۔بتاو! ہم سے ہمارا کیا پوچھا ہے۔جب سے آئے ہو لگتا ہے گھاس کھا گئے ہو۔ ہم سے کبھی قبل از مسیح کا پوچھتے ہو اور کبھی آنے والی نسلوں کا۔ مگر تمہارے سامنے جو یہ نسل بیٹھی ہے اس کو نئی نسل تک کون پہنچائے گا۔ ہم کیسے شاعر ہیں سوال یہ بنتا تھا اور تم پوچھتے ہو کہ ہم شاعر ہیں یا نہیں۔

وہ پوچھتے ہیں کہ طباطبائی کون ہیں

کوئی بتلائے یا ہم بتائیں کیا

امے ہم پہ ریسرچ کیا اگلے جنم میں کرو گے جب کہ یہ تک نہیں جانتے کہ ہم شاعر بھی ہیں۔ جاو¿ پہلے ڈھنگ سے سوال بنا لاو کچھ پڑھو پھر آنا۔تم جیسوں کے انٹرویوز کوئی پڑھتا بھی ہے۔؟؟ جو خود علم سے عاری ہوں وہ علم کیا بانٹیں گے۔ ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے ہم انٹرویو نہیں کسی نائی کی دکان پر بیٹھے ہیں اور وہاں پر کسی بال و پر کاٹتے قینچی بردار کو سن رہے ہیں۔ایسا ہوتا ہے انٹرویو ، جس کا نہ سر ہے نہ پیر ہے۔؟؟ تم بس ایک ہی ہانک لگاتے جا رہے ہو کہ ہم شاعر ہیں ، افسانہ نگار ہیں یا ناول لکھتے ہیں۔تمہاری ریسرچ کا حال تو معیشت سے بھی بدتر ہے۔ انٹرویو تین باتوں کے لیے ہوتا۔مہمان کی زندگی ، فن اور تجربات۔ ذرا تم سوچو۔تم یہ بھی نہ پوچھ سکے کہ ہم طباطبائی کیوں ہیں۔ہونے کو تو نان بائی بھی ہو سکتے تھے۔ ہمارے فن سے تو ایسا لگتا ہے جیسے تمہیں بیر ہو۔اور آخری حصہ ہے ہمارے تجربات ، اب آئینہ تمہارے سامنے ہے بس فیصلہ باقی ہے۔ تم نے ان تین باتوں کے علاوہ ہر بات کی ہے۔ ہم شاعرِ وطن ہیں۔ اور تم پوچھتے ہو کہ شاعری کی ہے۔کمال کرتے ہو۔ یہ سوال تمہاری ذہنی استطاعت اور مطالعہ کا ماتم کر رہا ہے۔جاﺅ پہلے گنگا نہاو¿ کچھ پاپ دھلیں۔ ادب کو جانتے ہوتے تو ہم سے انجان کیونکر رہ پاتے۔


اطہر کلیم :-  ایک تو آپ یہ بدتمیزی بند کیجئے۔۔ میں بڑی شرافت سے آپ سے مخاطب ہوں اور آپ ہیں کہ بد تہذیبی کا مظاہرہ کئے جارہے ہیں۔۔ دوسرا یہ کہ غالب کے اشعار میں اپنے تخلص فٹ کرنا بند کیجئے۔۔ اپنا کچھ لکھا ہو تو سنائیے۔۔

عالمگیر طبا طبائی:- بد ،برے کو کہتے ہیں میاں اور تمیز تو جانتے ہو نا۔؟؟ یا علم و عقل کا خانہ بیچ کھائے ہو جو یہ بھی نہیں سمجھتے کہ بزرگوں سے کیسے مخاطب ہوا جاتا ہے۔ ہم اور بدتمیز۔۔ یہ کیسے الفاظ ہیں۔کچھ شرم و حیا کا پاس ہے یا نہیں۔انٹرویو کا شوق چرا رہا تھا تو پہلے عقل کو گھاس چرنے سے روکتے۔ شرافت کا مظاہرہ کرو میاں۔ یہ دھمکی آمیز زبان ہم گدی سے اکھاڑ دیا کرتے تھے۔ وہ بھی ایک زمانہ تھا جب ہم پہلوان تھے۔جبڑا پہلوان کا نام تو سنا ہوگا۔ اس کا جبڑا ہم ہی نے توڑا تھا۔ ہمیں وراثت میں صرف ادب نہیں ملا ہم نے اکھاڑا بھی سینے سے لگایا تھا۔ اس لیے یہ شرافت شرافت کی گردان ہمارے سامنے نہ کرو۔ہم نے قلم و قرطاس کے ساتھ جنگ و جدل بھی صدیوں تک دیکھا ہے۔ تمیز سے سوال کرو اور جواب لے کر دال فے عین ہو جاو۔اور چچا کے اشعار پڑھنے سے تم کیوں تلملا کر تتیا مرچ بن گئے ہو۔چچا کا لکھا ہماری ہی وراثت ہے۔

تمہیں اپنے اشعار سنائیں؟۔ نہ میاں۔ تم اس قابل کہاں ہو۔تمہیں تو انٹرویو دینا ہی غلطی لگ رہی۔سوال کم کرتے ہو باقی سب کچھ خوب کرتے ہو۔تم جیسے ڈائجسٹ فروشوں کی وجہ سے آج ادیب دربدر ہیں اور تم ہمیں یعنی خادمِ اردو عالمگیر طباطبائی کو تہذیب سکھاو گے۔ اپنے قد سے اونچا نہ اڑو ورنہ منہ کے بل زمین پر گرو گے۔ جاو¿ اپنی بے تکی کہانیوں سے اپنے ڈائجسٹ کا پیٹ بھرو۔ تمہیں حق نہیں ہے کہ کسی قابل ادیب و شاعر سے بات بھی کرو۔تم تہذیب کے منہ پر تمانچہ ہو۔ ہمیں افسوس ہے کہ تم جیسے نووارد ادبی ٹھگ سے ہم بات کر رہے ہیں۔ تم جا کر کسی مہ جبیں کی مدح سرائی کرو اور کسی دلربا کی نیم عریاں تصویر فیشن آئیکون کے طور پر چھاپو تاکہ ڈائجسٹ کی سیل بڑھے ۔۔ اور ہاں یہ افسانے، کہانی، شاعری کی خدمت کے جو دعوے ہیں ان کی قلعی ہم نے کھلی آنکھوں دیکھی ہے۔ کسی فلم اسٹار کو بلا لیتے یا بنا بات کے دانت نکالتے کسی بلے باز کو بلا لیا ہوتا ہم کیوں یاد آئے تمہیں۔ یہ ہماری خوش فہمی تھی جو سمجھ بیٹھے کے تم جیسے نوجوان خادمِ اردو کو پہچان سکتے ہیں لیکن تم تو شاید ہمارے نام کی اصل تک نہیں پہنچے ۔۔ ہمارے کام کی کیا فہم ہوگی یہ شعر سنو اور باقی عمر اس کے معنی پر غور کرتے رہو۔۔

طمطراقِ فراق غمگساریِ الفت ہے شنیدن

مے گر چہ من دانم و می جانم چہ عاشقی


اطہر کلیم :-  معاف کیجئے گا۔۔ مجھے لگا تھا کسی ادیب کا انٹرویو کرنا ہے، یہ نہیں معلوم تھا کہ کسی پہلوان سے سابقہ پڑے گا۔۔ میں اسے مزید آگے نہیں بڑھا سکتا۔۔ اجازت دیجئے۔۔ 

عالمگیر طبا طبائی:- ارے میاں جاو۔ کہاں تم اور کہاں تمہارا یہ ماہنامہ۔ ابھی بات شروع نہیں ہوئی اور تم لنگوٹی چھوڑ کر بھاگ رہے ہو۔ ہم کہے دیتے ہیں بنا انٹرویو مکمل کیے کوئی کہیں نہیں جا سکتا۔ ہمارے فن پر سوال کرو۔ہماری کتابوں کا ذکر کرو۔ ایسی کم ظرفی کیسے کر سکتے ہو کہ اپنی ہانکی اور نکل لئے۔۔ ہم اردو کے خادم ہیں۔اور تم ہمیں پہلوان کہہ رہے ہو۔ تمہارا رسالہ بھی تو بس ایک مداری کا تماشہ ہے جہاں تم چاہتے ہو کہ ہم تمہاری ڈگڈگی پر ناچیں ۔مگر نوجوان ۔۔۔ 


اطہر کلیم :-  قارئین میں آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو ”دوبدو“ میں یہ سب برداشت کرنا پڑا۔۔ فی الحال مجھے اجازت دیجئے تاکہ میں ان پہلوان نما خادم سے نمٹ سکوں۔۔ ملتے ہیں اگلی قسط میں کسی نئے مہمان کے ساتھ۔۔ تب تک کے لئے خدا حافظ۔۔

٭٭٭٭٭


Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.