Type Here to Get Search Results !

علامہ اقبال اور اردو شاعری

 از : مرزا صہیب اکرام 




1984 میں راکیش شرما پہلے ہندوستانی خلاباز سے وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پوچھا کہ خلا سے ہندوستان کیسا لگتا ہے تو ان کا جواب تھا " سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" یہ کمال تھا آسان سے لفظوں میں بیاں کی گئی تعریف کا جس سے بہتروطن کی تعریف آج تک کوئی نہیں لکھ سکا ۔۔پچھلے ستر سالوں میں بر صغیر کے اردو بولنے والے گھروں میں شاید ہی کوئی شخص ہو جس نے بچپن میں "لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری " نہ پڑھا ہوگا ۔۔۔علامہ اقبال ایک ہمہ جہت شخصیت شاعر ، نثر نگار ،استاد ، مفکر ،سیاست داں اور کامیاب وکیل تھے۔

ایک انسان میں اتنی خداداد صلاحیتوں کا یکجا ہونا بھی نعمت خداوندی تھی۔علامہ اقبال کی تمام جہتوں اور خوبیوں میں سب سے نمایاں ان کی شاعری کو کہا جاتا ہے کیونکہ ان کو شاعری سے بہتر کوئی ایسا فن نہیں ملا جسے وہ ذریعہ اظہار بنا سکتے ۔اسی وجہ سے ان کی شاعری میں پڑھنے والوں کو دنیا جہان کے تمام مسائل اور ان کا حل ملتا ہے ۔

.

محمد اقبال کی پیدائش 9 نومبر 1877 میں سیالکوٹ کے ایک کشمیری مذہبی گھرانے میں ہوئی ۔ان کے والد ایک ٹیلر تھے ۔ محمد اقبال نے چار سال کی عمر میں سید میر حسین سے عربی سیکھنا شروع کی ۔یہ ان کے عظیم الشان تعلیمی سفر کی ابتدا تھی ۔۔اسکاچ مشن اسکول سے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج سے فلسفہ ،انگریزی ادب اور عربی میں بیچلرز کی ڈگری مع میڈل حاصل کی اور 1899 میں  یونیورسٹی آف پنجاب سے فلسفہ میں ماسٹر کرتے ہوئے پہلی پوزیشن لی ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلے اورینٹل کالج اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور استاد پڑھانا شروع کیا ۔۔1905 میں اپنے استاد تھامس آرنلڈ کی صلاح پر انگلینڈ گئے ۔ یونیورسٹی آف کیمبرج کی اسکالر شپ حاصل کرکے اپنی بیچلرز ڈگری مکمل کی ۔جس نے انھیں بطور وکیل پریکٹس کے لئے تیار کردیا ۔1907 میں محمد اقبال جرمنی گئے اور 1908 میں یونیورسٹی آف میونخ سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ انکی ڈاکٹریٹ تھیسیس کا موضوع تھا ۔ The Development of Metaphysics in Persia  ۔۔انڈیا واپس لوٹ کر ڈاکٹر اقبال نے بطور وکیل اور بطور پروفیسر اپنا کیریر شروع کیا لیکن جلد ہی اسے خیر آباد کر کے 1919 میں اپنے سیاسی کیریر کی ابتدا کی ۔


علامہ اقبال ابتدا سے رومی سے متاثر تھے ساتھ ہی ان کے یورپ کے قیام نے انھیں گوئٹے اور دیگر مغربی شعرا اور مفکرین سے استفادے کا موقع بھی فراہم کیا ۔اسرار خودی" ، "رموز بیخودی " ، "پیام مشرق" , "زبور عجم" اور "جاوید نامہ" ان کے فارسی کلام کے مجموعے ہیں ۔۔جس میں انھوں نے فلسفہ خودی اور مسلم امہ سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔۔اقبال کی فارسی شاعری ایران اور افغانستان میں بہت مقبول رہی ہے ۔


علامہ اقبال نے اردو شاعری کی ابتدا اپنے تعلیمی دور میں کی تھی گرچہ ڈاکثر اقبال کی شاعری کا  تقریبا 60 فی صد حصہ فارسی پر مشتمل ہے لیکن ان کی اردو شاعری انھیں بیسویں صدی کے اردو شعرا میں سب سے بڑے نام کے طور پر منواتی ہے۔۔ان کی اردو شاعری کو عموما تین مختلف ادوار میں بیان کیا جاتا ہے۔ پہلا دور 1905 سے پہلے کا ہے جب ان کی شاعری میں وطنیت ، سیکولرزم اور قدرتی مناظر سے عشق نمایاں نظر آتا ہے ۔۔دوسرا دور یورپ کے قیام کا دور جس میں ڈاکٹر اقبال نے یورپ کے طرز معاشرت ، مادیت پرستی اور مذہب سے دوری پر لکھا ۔

اور تیسرا دور جب یورپ سے واپسی پر اقبال نے اپنے نظریات مسلم عوام تک پہنچانے کے لئے اردو کا سہارا لیا اور 1924 میں ان کا پہلا اردو مجموعہ کلام "بانگ درا"  شائع ہوا  ۔1930 کے بعد سے ان کا زیادہ تر کلام اردو میں رہا ۔1935 میں "بال جبریل" اور 1936 میں "ضرب کلیم" دو مزید اردو مجموعہ کلام شائع ہوئے۔  ان کا آخری مجموعہ "ارمغان حجاز " ہے جو پس مرگ شائع ہوا اس میں  اردو اور فارسی دونوں زبانوں کا کلام شامل ہے ۔


ڈاکٹر اقبال کی  شاعری میں ایک چیز کی ہمیشہ اہمیت رہی وہ ہے مقصدیت ۔۔ڈاکٹر اقبال نے ابتدائی دور میں بچوں کے لئے بہت سی نظمیں لکھی جو بانگ درا میں شامل ہیں۔ بچوں کو اخلاقیات کے مختلف سبق سکھاتی یہ نظمیں عام فہم زبان اور خوبصورت انداز بیان کے باعث آج بھی ذوق و شوق سے پڑھتی جاتی ہیں ۔بچے کی دعا ، پرندے کی فریاد ، ایک پہاڑ اور گلہری ، ایک پرندہ اور جگنو ، ہمدردی۔۔وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں ۔

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

 زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری 


ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے 

آتے ہیں جو کام دوسروں کے 


نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں 

کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانہ میں 

اسی دور میں لکھے ڈاکٹر اقبال کے "ترانہ ہندی" اور "ہندوستانی بچوں کا قومی گیت" جہاں تاریخی حیثیت رکھتے ہیں  وہیں اردو میں لکھی چند خوبصورت نظموں میں سے ایک کہے جاسکتے ہیں ۔


" ترانہ ہندی''

اے اب روداد گنگا وہ دن ہے یاد تجھ کو 

اترا ترے کنارے تھا جب کارواں ہمارا 

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری 

صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا 


"ہندوستانی بچوں کا قومی گیت"

چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا 

نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا 

تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا 

جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا 

میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے..


ناقدین ادب،  ڈاکٹر اقبال کی فارسی شاعری کو ان کی بہترین تخلیق گردانتے ہیں لیکن ان کی عوام میں مقبولیت کا باعث ان کی اردو شاعری بنی ۔ آج ڈاکٹر اقبال کے بے شمار مصرع ضرب المثل بن چکے ہیں  


ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ 

"پیوستہ  رہ شجر سے اور امید بہار رکھ "


تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا

"کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر "


اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے 

"گفتار کا غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا "


ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں 

"ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں "


باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں 

"کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر "


ڈاکٹر اقبال کی شاعری مقصدیت اور نظریات سے مزین ہوتی ہے اور اس کے لئے انھوں اکثر نظموں کا سہارا لیا۔ان کی غزلوں کا تناسب نظموں کے مقابلہ میں کافی کم ہے لیکن غزلوں میں بھی ان کا تنوع اور زبان پر گرفت بخوبی نظر آتی ہے ۔۔چاہے وہ روایتی غزل ہو یا عقل اور عشق کا فرق سمجھاتے تلمیح اشعار ۔۔


ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں 

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں 

ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی 

کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں 


تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد

مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی 


پختہ ہوتی ہی اگر مصلحت اندیش ہو عقل 

عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی 

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق 

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی


1920 کے بعد ڈاکٹر اقبال کی شاعری کا مرکز مسلم قوم رہی اور اس دور کا زیادہ تر کلام  فلسفہ خودی اورمسلمان نوجوانوں کو عہد رفتہ کی یاد دلاکر قومی حمیت جگانے کے حوالے سے ہے ۔۔"بال جبریل " اور "ضرب کلیم" میں شامل۔غزلوں ،رباعیات اور منظومات کا موضوع مسلم نوجوان اور فلسفہ خودی رہا ہے ۔ڈاکٹر اقبال نے اردو میں ان صرف ان  موضوعات کو پہلی بار متعارف کروایا بلکہ  کئی نئی اصطلاحات کی بنیاد بھی ڈالی۔ ان منفرد موضوع اور اصطلاحات نے ان کی شاعری کو اردو کے دیگر شعرا سے ایک مختلف رخ عطا کیا ہے  ۔

مثلا ایسے منفرد قوافی اقبال کی غزلوں میں ہی نظر آسکتے ہیں 

اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ 

ٹوٹا ہے ایشا میں سحر فرنگیانہ 

اے لا اللہ کے وارث ،باقی نہیں ہے تجھ میں 

گفتار دلبرانہ ، کردارِ قاہرانہ


جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی 

کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی 

آئین جواں مرداں حق گوئی وہ بے باکی 

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی 


ان کی نظمیں  "اندلس کے میدان جنگ سے" ، "فرشتوں کا گیت" اور قرطبہ فلسطین میں لکھی نظمیں اپنے موضوع اور ان میں موجود پیغام کے لئے جتنی اہم ہیں وہیں اردو نظم اور شاعری کے لئے ایک اہم سنگ میل بھی ہیں ۔۔ان کی لکھی ایک اردو اور فارسی کی نظم" پیر و مرید" جو پیر رومی اور مرید ہندی کے سوال و جواب مشتمل ہے اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔


مرید ہندی 

چشم بینا سے ہے جاری جوئے خوں

علمِ حاضر سے ہے دیں زار و زبوں 

پیر رومی 

علم را بر تن زنی مارے بود 

علم را بر دل زنی یارے بود 


ڈاکٹر اقبال کی اپنے بیٹے جاوید کو کی گئی منظوم نصیحت صرف اس دور کے نہیں ہر دور کے نوجوانوں کے لئے ایک اہم یاد دہانی ہے ۔۔


دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر 

نیا زمانہ ،نئے صبح و شام پیدا کر

مرا طریق امیری نہیں ،فقیری ہے 

خودی نہ بیچ ،غریبی میں نام پیدا کر 


ان کے علاؤہ ڈاکٹر اقبال کی اردو میں مشہور ترین نظم شکوہ اور جواب شکوہ سمجھی جاتی ہے ۔۔جس کے کئی مصرعہ آج بھی زد عام ہیں ۔

آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز 

قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز 

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز


کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے 

بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے ۔

علامہ اقبال نے شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا پھر اس کے ذریعے مسلم قوم کے ماضی حال اور مستقبل کی بات کی۔ان کے دلفریب انداز کی وجہ سے ان کا کلام دو چار سال یا دہائی کے لیے لوگوں کے ذہنوں میں نقش نہیں ہوا بلکہ اس کو ایسا دوام حاصل ہوا کہ وہ دن بہ دن آپ ہی آفاقیت کی وجہ سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

اقبال نے شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو جوڑا اور بین المذاھب ہم آہنگی کی بات بھی کی انہوں نے سیاسی شعور کو عام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ ان کے دور کا غریب مسلمان ان کے پیغام کو سمجھ سکے اور زندگی کے میدان میں آگے بڑھنے کی ہر ممکن کوشش کرے ۔ 

اقبال نے غربت میں خوداری کا سبق ضرور دیا لیکن اس سے بھی پہلے یہ درس دیا کہ اپنے آج اور کل کو سنوارو تاکہ تم کسی پر بوجھ نہ بنو بلکہ دوسروں کا بوجھ اٹھانے والے کہلاؤ ۔

اقبال سے علامہ اقبال کا سفر اقبال کے عروج کا قصہ ہے جو کبھی روبہ زوال نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ کامیابیوں اور کامرانیوں کی جانب گامزن رہا ہے ۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.