Type Here to Get Search Results !

ساغر صدیقی : ایک مفلوک الحال شاعر

از  :  زیبا خان حنا

ریسرچ اسکالر، دہلی یونیورسٹی ، دہلی







            ساغر صدیقی ایک مفلوک الحال شاعر جسے وقت نے ہمیشہ ٹھوکروں کی زد میں رکھا۔ جس کی شاعری کے حصے میں شہرت اور پہچان محض چند دنوں کے لئے آئی۔ اور ان چند دنوں کی شاعری میں ساغر نے دنیا جہان کا درد سمیٹ کر ایسے ایسے شعر لکھ ڈالے جو آج کے شعراء کے یہاں کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ افسوس کہ ایسے شاعر پر جتنا لکھا جانا چاہیے تھا نہیں لکھا گیا۔ ساغر صدیقی نے اپنے بارے میں خود ایک بار کہا تھا کہ،

"میری ماں دلی کی تھی،باپ پٹیالے کا ، پیدا امرتسر میں ہوا،زندگی لاہور میں گزری! میں بھی عجیب چوں چوں کا مربہ ہوں "
                                                                                                                                                                          بحوالہ:- دیوان ساغر صدیقی، پیش لفظ ، مالک رام
            ساغر صدیقی کی پیدائش 1928 انبالہ میں ہوئی۔ بچپن سے ہی غربت و افلاس کا زمانہ دیکھا۔ اور مرتے دم تک اسی حالت میں رہے۔ بچپن کا نام اختر تھا۔ شروع میں شاعری ناصر حجازی کے نام سے کی بعد میں نام بدل کر ساغر صدّیقی رکھ لیا۔ ساغر صدیقی نے اپنے بارے میں نہ تو زیادہ لکھا اور نہ ہی کسی کو بتایا۔ شعری مجموعہ مقتل گل کے پیش گفتار میں محمد عبداللہ قریشی نے ساغر صدیقی کی زبانی بیان ہوئی کچھ باتوں کا ذکر کیا ہے۔جس میں ساغر صدیقی نے اپنی تعلیم و تدریس سے متعلق بتایا ہے کہ،
" میں نے اردو اپنے گھر میں پڑھی، ایک چالیس پچاس سالہ بزرگ جن کا نام حبیب حسن تھا، بچوں کی تربیت و تعلیم کا بہت ذوق رکھتے تھے۔ یہیں مجھ میں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ میری عمر سات یا آٹھ سال کی ہوگی کہ میں اردو میں اتنی مہارت حاصل کر چکا تھا کہ اکثر خط لکھوانے والے اپنی گذارشات کو میرے انداز بیان میں سن کر داد و تحسین سے نوازتے تھے۔ "
                                                                                                                                                                                  بحوالہ :- ساغر صدیقی، مقتلِ گل ، صفحہ 15
            ساغر صدیقی نے کم عمری میں ہی شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا جادو تھا وہ ترنم سے غزلیں پڑھا کرتے تھے۔ پہلی بار امرتسر کے ایک مشاعرے میں کچھ شعر سناکر محفل لوٹ لی۔ وہیں سے ساغر کی شاعری کو لوگوں نے جاننا شروع کیا‌۔ مشاعروں میں انھیں بلایا جانے لگا‌۔ وہ شاعری کی دنیا میں ایک نیا نام بن گئے۔ ساغر نے شاعری میں اصلاح کے لئے انور گورداسپوری کا انتخاب کیا تھا۔ اور کچھ دنوں کے لئے اپنی غزلیں انھیں دکھائیں۔
            تقسیم ہند کے بعد ساغر صدیقی لاہور چلے گئے جہاں ان کی شاعری کو لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا‌۔ ساغر کی شاعری رسالوں میں شائع ہونے لگی۔ کئی فلموں کے لیے انھوں نے نغمے بھی لکھے۔ لیکن ساغر کی زندگی کا یہ خوبصورت دور محض چار پانچ سال ہی رہا ۔ یہ ان کی شاعری کا عہد زریں دور تھا۔ بہت جلد قسمت نے پلٹی ماری اور ساغر کی زندگی بدل گئی۔ ساغر صدیقی در در بھٹکنے کو مجبور ہو گئے۔ کچھ دوستوں کی صحبت میں رہ کر ساغر نشے کے عادی ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ ان کے دوست یار افیون اور نشے کی گولیاں دے کر ان کی غزلیں لے جایا کرتے تھے اور مشاعروں میں اپنے نام سے پڑھ کر داد وصول کرتے تھے۔ آخری ایام میں ساغر نشے کے اس قدر عادی ہو گئے تھے کہ ہر وقت نشے میں ہی رہتے تھے۔ کسی بھی دوست یار کے سامنے ہاتھ پھیلا دیا کرتے اور چونی مانگتے تھے۔ اس لئے ان کے دوست اور جاننے والے ساغر کو دیکھتے ہی چونی نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیتے۔۔۔۔۔اور قریب آکر ہاتھ پر رکھ دیتے، دن بھر میں اکٹھا کی گئی چونی کچھ روپے ہو جاتے، اور ساغر شام کو اسی سے افیون شراب پی لیا کرتے ہیں اور ادھر ادھر سڑکوں پر فٹ پاتھوں پر پڑے رہتے۔
            ساغر صدیقی کی شاعری کے چھ مجموعے شائع ہوئے۔ جن میں زہر آلود 1960 میں، غم بہار 1964 میں، لوحِ جنوں 1970 میں، شیشہ دل اور شب آگہی 1972 میں ، مقتل گل 1974 میں شامل ہیں۔ ساغر احساسات و جذبات کا ایک ایسا شاعر تھا جس کی شاعری میں جذبات کی پاکیزگی، سلاست و روانی دریا میں بہتے پانی کی مانند تھی۔ ساغر کے یہاں لفظوں کا انتخاب اور انھیں پیش کرنے انداز جداگانہ ہے۔ جس کی وجہ سے ان کا ہر شعر ذہن و دل پر اپنا نقش ثبت کرتا چلا جاتا ہے۔
کلیوں کی چمک ہوتا تاروں کی ضیا ہوتا
میں بھی ترے گلشن میں پھولوں کا خدا ہوتا
تم حال پریشاں کی پرسش کے لئے آتے
صحرائے تمنا میں میلہ سا لگا ہوتا
احساس کی ڈالی پر اک پھول مہکتا ہے
زلفوں کے لئے تم نے اک روز چنا ہوتا
            ساغر صدیقی کی شاعری احساس و جذبات کا بحر بیکراں ہے۔ جس کے اندر ڈوب کر نایاب موتی نکالے جا سکتے ہیں۔انھوں نے غزل کے پیکر میں زندگی کی ظاہری اور باطنی بے ثباتی کو جس طرح ڈھالا ہے وہ عام شعراء کے یہاں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ شاعری کا جو رنگ میر اور فانی کے یہاں ہے تقریباً وہی رنگ ہمیں ساغر کے یہاں بھی دکھائی دیتا ہے۔ دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ میر تقی میر خیالی محبوب کے عشق میں مبتلا تھے اور دلی کی تباہی سے دلبرداشتہ ہو کر لکھ رہے تھے جبکہ ساغر دنیا اور سماج کے غم سے بے زار ہوکر شاعری کر رہے تھے۔ اس لئے ساغر کا ہر شعر ان کے حالات و واقعات کا ترجمان نظر آتا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔۔۔
ترا جہان کیا ہے ایک آئینہ خانہ
کہ جس میں ششدر و حیراں ہے زندگی اپنی،
نہ جانے کون سا لمحہ چرا کے لے جائے
متاعِ گردشِ دوراں ہے زندگی اپنی
                                          ~~~~~~~
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
            واقعی ساغر کی زندگی وقت کے الٹ پھیر کا شکار رہی۔ امرتسر لٹنے اور تقسیم ہند کے واقعے نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ ایک مہاجرین بن گئے۔۔۔۔جس کا غم انھیں عمر بھر رہا۔ اسی غم کو ساغر نے جینے کا سہارا بنا لیا اور درویشی اختیار کر لی۔۔۔۔
موجزن وقت کے دریا میں نوائے درویش
ہدیہ چاک صدف دست دعائے درویش
ایک ہی چیز کی دو نام ہیں ساغر کے لئے
غیرت قوم و وطن اور ردائے درویش
            ساغر کو سماج کے بے جا اصولوں سے ہمیشہ گلہ رہا، دنیا اور سماج کے جاگیردارانہ نظام کے معیار پر ساغر پورے نہیں اتر سکے۔ شاید یہی وجہ رہی کہ سماج انھیں قبول نہ کر سکا۔ اور فقر و درویشی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ میلے کچیلے چیتھڑوں میں لپٹے ہوئے ساغر کے پاس صرف شعور تھا جسے فکری تخیل سے وہ شعر میں قالب میں ڈھالتے رہے۔ شعر لکھتے رہے۔۔۔ شعر پڑھتے رہے۔۔۔۔شعر ملاحظہ ہو۔۔۔
مانگی ہے اس دیار میں دونوں جہاں کی بھیک
لیکن ملی ہمیں دل ناکامراں کی بھیک
خود بک گئے حیات کی نیلام گاہ میں
وہ بانٹتے تھے جو کبھی کون و مکاں کی بھیک
            ساغر صدیقی کا نام آتے ہی ہمارے ذہن پر اکثر و بیشتر ایک مے نوش ہر وقت شراب کے نشے میں مدہوش رہنے والے شخص کا نقشہ ابھر کر آتا ہے۔ اسی لئے ساغر نے لکھا بھی ہے۔۔۔
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
            جبکہ ایسا نہیں ہے ساغر کی شاعری میں شراب، شباب، میخانوں کے ساتھ ساتھ حمد و نعت کے اشعار بھی ملتے ہیں۔ ساغر کے شعری مجموعوں کی شروعات حمد و نعت اور منقبت سے ہوتی ہے۔ جن میں ساغر خدا اور رسول سے بے پناہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ساغر کے حمدیہ اور نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں۔
لبوں پہ جس کے محمد کا نام رہتا ہے،
وہ راہ خلد میں محو خرام رہتا ہے
ہمیں ضرورت آب بقا نہیں ساغر،
ہمارے سامنے کوثر کا جام رہتا ہے
                                            ~~~~~~
بزم کونین سجانے کے لئے آپ آئے
شمع توحید جلانے کے لئے آپ آئے
ایک مدت سے بھٹکتے ہوئے انسانوں کو
ایک مرکز پہ بلانے کے لیے آپ آئے
            ساغر کی شاعری سے جب انتخاب کی بات آئے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کون سی غزل لی جائے اور کون سی چھوڑ دی جائے۔ کیونکہ ساعر کی ہر غزل انتخاب کے لائق ہے۔۔۔۔یہاں ساغر کی کچھ غزلوں کے اشعار ملاحظہ ہوں۔۔۔۔
سوچئے میکشی کے بارے میں
صورت زندگی کے بارے میں
مشورہ ہو رہا ہے تاروں میں
دیدۂ شبنمی کے بارے میں
آپ سے کچھ ہمیں شکایت ہے
زلف کی برہمی کے بارے میں
لوگ دیوانے ہو ہی جاتے ہیں،
سوچ کر آگہی کے بارے میں
چھوڑ رودادِ ساغر و مینا
بات کر تشنگی کے بارے میں
                                            ~•~•~•~
آہن کی سرخ تال پہ ہم رقص کر گئے
تقدیر تیری چال پہ ہم رقص کر گئے
پنچھی بنے تو رفعت افلاک پر اڑے
اہل زمیں کے حال پہ ہم رقص کر گئے
کانٹوں سے احتجاج کیا ہے کچھ اس طرح
گلشن کی ڈال ڈال پہ ہم رقص کر گئے
مانگا بھی کیا تو قطرۂ چشم تصرفات
ساغر ترے سوال پہ ہم رقص کر گئے
                                     ~•~•~•~•~•~
تری دنیا میں یارب زیست کے سامان جلتے ہیں
فریب زندگی کی آگ میں انسان جلتے ہیں
دلوں میں عظمت توحید کے دیپک فسردہ ہیں،
جبینوں پر ریا و کبر کے فرمان جلتے ہیں
ہوس کی باریابی ہے خرد مندوں کی محفل میں
روپہلی ٹکلیوں کی اوٹ میں ایمان جلتے ہیں
حوادث رقص فرما ہیں قیامت مسکراتی ہے
سنا ھے ناخدا کے نام سے طوفان جلتے ہیں
شگوفے جھولتے ہیں اس چمن میں بھوک کے جھولے
بہاروں میں نشیمن تو بہر عنوان جلتے ہیں
کہیں پازیب کی چھن چھن میں مجبوری تڑپتی ہے
ریا دم توڑ دیتی ہے سنہرے دان جلتے ہیں
مناؤ چشن مے نوشی بکھیرو زلف مے خانہ
عبادت سے تو ساغر دہر کے شیطان جلتے ہیں
                              ‌‌ ~~~~~~~~
پھول چاہتے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر
ہم نے آغوشِ محبت میں سلائے پتھر
وحشت دل کے تکلف کی ضرورت کے لئے
آج اس شوخ نے زلفوں میں سجائے پتھر
میں تری یاد کو یوں دل میں لئے پھرتا ہوں
جیسے فرہاد نے سینے سے لگائے پتھر
            ساغر صدیقی عورتوں کی بہت عزت کرتے تھے۔ لیکن کسی کو بھی اپنی زندگی کا ساتھی نہیں بنا سکے۔ امرتسر کے دنگوں میں لٹنے والی عورتوں سے ساغر کو ہمدردی تھی۔ اور ان کے لٹنے کا غم بھی۔ ژولیان ایک فرانسیسی ادیب تھا جس نے ساغر کی زندگی پر ساغر کی آپ بیتی کی شکل میں ایک ناول " ساغر" لکھا۔۔۔جو ساغر صدیقی کے حوالے سے اردو ادب میں بیش قیمتی اضافہ ہے۔۔۔ اسی ناول سے ایک اقتباس۔۔۔۔
"یہ کیا ستم ہے کہ عورتیں فنا ہوئیں اور ان کے جلاد زندہ ہیں۔یہ کیا ستم ہے کہ میں نہ عورتوں کو جان سکا اور نہ ان سے پیار کر سکا۔ میری ملاقات سے پہلے سب معدوم ہو گئ تھیں۔ میری زندگی میں صرف ان کی یاد گاریں باقی ہیں۔ان کی مبہم فلمیں اور ان کی روٹھی ہوئی تصویریں۔"
                                                                                                                                                                                      بحوالہ:- ژولیان ، ناول "ساغر" ، صفحہ 28

                ساغر کی شاعری کو جو پذیرائی ملنی چاہئے تھی وہ نہیں مل سکی، ساغر کو لوگوں نے پہچانا ہی نہیں۔ غم دنیا کا دکھ ساغر کو کھا گیا۔۔۔اور ساغر نے دنیا سے منھ ہی موڑ لیا۔ آخری دنوں میں ساغر میلے کچیلے ، چیتھڑوں میں لپٹے ہوئے سڑک کنارے فٹ پاتھ پر دکھ جایا کرتے تھے۔ 19 جولائی 1974 میں سڑک کے کنارے ہی ساغر کی لاش پڑی ہوئی ملی۔۔کچھ دوستوں نے لے جاکر پاس ہی میانی قبرستان میں دفنا دیا۔ لفظوں کے حسین پیکر کو شعری قالب میں ڈھالنے والا یہ شاعر خاک کی چادر اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ جس کی مزار پر آج بھی عرس ہوتا ہے۔۔۔۔۔ میلے لگتے ہیں۔۔۔۔ جیتے جی جسے کپڑے نصیب نہیں ہوئے مرنے کے بعد اس کی مزار پر چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ ساغر جیسا بدنصیب شاعر نالۂ دل فگار بن کر جہان محفل سے رخصت تو ہو گیا لیکن وہ اپنے شعروں سے اس جہان فانی میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالۂ دل فگار بن کر
مگر یقین ہے کہ لوٹ آئیں گے نسخۂ نو بہار بن کر
جہان والے ہمارے گیتوں سے جائیزہ لیں گے سسکیوں کا
جہان میں ہم پھیل جائیں گے بشر بشر کی پکار بن کر
بہار کی بدنصیب راتیں بلا رہی ہیں چلے بھی آؤ
کسی ستارے کا روپ بن کر کسی کے دل کا قرار بن کر

********

حواشی:-

                    (1) ساغر صدیقی ، مقتل گل (شعری مجموعہ)
                    (2) ژولیان ، ساغر (ناول) ، نگارشات پبلشرز
                    (3) ساغر صدیقی ، لوح جنوں ( شعری مجموعہ)، مکتبہ شعر و ادب سمن آباد، لاہور
                    (4) ساغر صدیقی، دیوان ساغر صدیقی، خیام پبلشرز

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.