Type Here to Get Search Results !

انبالہ سے لاہور کے فٹ پاتھ تک۔۔

از : نمرہ ابرار مغل



            سڑک پر رہنے والے کا خرچہ ہی کیا ہوتا ہے۔۔۔ سگریٹ کے ایک دو پیکٹ۔۔۔ چائے کے دو کپ۔۔۔

            وہ اپنا ڈھانچہ نما نحیف و نزد جسم لیے لاہور کی سڑکوں پر مست الست حالت میں پھرتا رہتا۔۔ چلتے چلتے اس کے پیر زخمی ہو جاتے اور ان سے پیپ بہننے لگتی۔۔ اس کے جسم کی ہڈیوں سے گوشت آہستہ آہستہ اترنے لگا۔۔ اس کے جسم پر پڑے پھوڑوں سے خون اور پیپ رسنے لگتی۔۔ دیکھنے والی آنکھیں اسے مدہوشی میں دیکھ کر اپنا رخ بدل لیتی۔۔ اس کی مدہوشی آہستہ آہستہ مکمل مدہوشی میں بدل گئی اور اس نے خود کو دادا گنج بخش کے مزار کی تاریکی جھوپڑوں میں قید کر لیا۔۔ 

            یہ راستہ اس کا اپنا پسند کیا ہوا تھا۔۔ اپنے لیے سیاہ  چادر کا انتخاب کیا اور غم کی سیاہی اس کا لباس بن گئی۔۔ وہ اپنے سیاہ لباس کو لباس غم کے نام سے پکارتا۔۔ سنہری سانوری رنگت جل گئی تھی۔۔ اس کے بالوں میں خاک مل گئی تھی۔۔  اس کی بڑی بڑی مست آنکھیں  نشے میں ہوتیں۔۔ اس نے اپنی ذات سے علیحدگی اختیار کر لی۔۔ مسلسل مدہوشی سے اس کے  ہوش و حواس ختم ہو گئے۔۔ وہ خود سے باتیں کرنے لگا۔۔ کچھ لوگوں کو اس سے محبت تھی، انہیں اس کے جسم پر پڑی سیاہ پھٹی ہوئی چادر سے کوئی غرض نہیں تھی، وہ صرف ان لوگوں کے لیے محبت کا پیکر تھا جو لوگ ٹھکرائے ہوئے تھے۔۔ اس کا وجود آہستہ آہستہ موم بتیوں کی طرح پگھل گیا تھا۔۔ وہ خود سے بے خبر تھا۔۔ اس نے خود کو شہر سے الگ کر لیا تھا۔۔ لوگوں نے اس سے آنکھ نہ ملائی  تو اس نے بھی خود کو زمانے کی آنکھ سے دور کر لیا۔۔ اس کے خیال ہی اس کے ساتھی تھے۔۔  اسے پیسوں سے نفرت تھی۔۔ اس کی تباہ شدہ زندگی دیکھنے والوں کے لیے ایک تماشا بن گئی۔۔ وہ انسانی احترام جانتا تھا۔۔ وہ انسان سے محبت کرنا جانتا تھا۔۔ وہ اس گھٹن زدہ معاشرے میں پیار چاہتا تھا۔۔ اس نے معاشرے کی تلخیوں سے دور رہنے کے لیے زہر کو اپنے ہونٹوں سے لگایا اور یہ زہر اتنا جان لیوا تھا کہ اس کا عادی ہو گیا۔۔ شہر میں اس کا کوئی گھر نہیں تھا۔۔ اس نے جھونپڑیوں سے رخ موڑ کر سڑکوں پر رہنا شروع کر دیا۔۔ پاک لینڈ پریس کے فٹ پاتھ پر اس کی محفلیں عروج پر ہوتی۔۔ شام ہوتے ہی وہ اپنا كمبل یا چادر سڑک پر بچھاتا دو اینٹیں لا کر ان پر موم بتیاں روشن کرتا ۔۔ اگر بتیاں سلگاتا تو اس کے ارد گرد ہجوم جمع ہونے لگتا۔۔ نوجوان شاعر مل کر اس کی محفل میں شعر و نغمہ سناتے اور محفل کے بعد چائے کا دور چلتا۔۔

            یہ مشاعرہ "ساغر صدیقی" ہر جمعرات کو فٹ پاتھ پر سجاتا کیونکہ ساغر صدیقی کہا کرتا تھا۔ "سارا شہر میرا گھونسلہ ہے، کیا باغ، کیا فٹ پاتھ، فقیر کے لیے تو گھر کا تصور مشکل بنا دیا گیا ہے"۔

            اپنے لیے فقیر کا لفظ اس نے خود استعمال کیا تھا۔ ساغر نے خود کو لوگوں سے الگ کر لیا تھا وہ اپنی شاعری سے زندگی کے احساسات اور نفرتوں کا مشاہدہ کرتا۔ اس کی شاعری میں جذبات کی پاکیزگی تھی۔ وہ لفظوں کے حسین پیکر کو شعری  قلب میں ڈھالنے کا فن جانتا تھا۔ لفظوں کا انتخاب اور انہیں پیش کرنے کا انداز جدا تھا۔

            1928 میں انبالہ میں پیدا ہونے والے ساغر صدیقی جس  کا اصل نام محمد اختر تھا۔ شروع میں تخلص ناصر حجازی رکھا پھر کچھ وقت بعد تبدیل کر کہ ساغر صدیقی رکھ لیا۔ تقسیم ہند سے پہلے وہ امرتسر کے مشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے۔تقسیم ہند کے بعد ساغر صديقی لاہور آ گئے۔ اب اس کا کام صرف شعر لکھنا تھا۔ اسی دوران ساغر کا کلام  کئی روزناموں، ماہوار ادبی جریدوں اور ہفتہ وار رسالوں میں شائع ہوتا رہا۔ فلمی دنیا کے لیے بھی ساغر نے کئی مقبول گیت لکھے جو لوگوں نے بے حد پسند کیے۔ آہستہ آہستہ ساغر کے معاشی حالات خراب ہونے لگے۔ مشاعروں سے ملنے والا معاوضہ اس کے لیے نا کافی ہوتا۔ ساغر صدیقی نے انقلاب کشمیر کے نام سے ایک فلم بھی بنانی شروع کی لیکن جلد ہی مالی حالت کی وجہ سے بند کرنا پڑی۔ اس کے بعد ساغر نے ہفتہ روزہ فلمی اخبار کی ڈیکلریشن لے لی اور اس نے بہت محنت سے پہلا اور دوسرا شمارہ نکالا لیکن اشتہاروں کی ادائیگی وقت پر نہ ہونے کی وجہ سے تیسرا شمارہ  نہ نکل سکا اور پانچ روپے میں بیچ دیا۔ ساغر کی ناکامیاں اس کے شعور پر حاوی ہونے لگی۔ اس نے لوگوں سے بات چیت کرنا کم کر دی شعر بھی بہت کم لکھتا۔ اب اس کا زیادہ وقت مدہوشی کے اڈوں پر گزرتا۔ اس نے مشاعروں میں آنا جانا چھوڑ دیا جب دل کرتا تو خود ہی کسی مشاعرے میں چلا جاتا یا کوئی دوست اسے زبردستی لے جاتا۔ اس کے دوستوں میں سے کچھ ساتھیوں نے  اسے چرس کی پڑیا اورمارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دینا شروع کردی۔ لوگ اس کا کلام خریدنے لگے اور ناشر نے پچاس روپے کے عوض اس کے کلام کا مجموعہ "زہر آرزو" شائع کردیا۔ اس کے بعد ساغر کے کلام کے مزید مجموعے شائع ہوئے جو بہت مقبول ہوئے اور لوگ اسے ڈھونڈنے کے لیے  لاہور کی سڑکیں چھاننے لگے۔۔۔

            ساغر صدیقی کی زندگی کا کافی عرصہ ریڈنگ روم میں گزرا ریڈنگ روم کے باغ میں پورا دن گزرتا اور رات کوٹھری میں۔ لوگ اسے درویش کے نام سے پکارنے لگے تھے اسی دوران سیالکوٹ میں گورنمنٹ کالج کے زیر اہتمام مشاعرے میں اس نے اپنی نظم  درویش پڑھی اور مشاعرہ لوٹ لیا۔ ریڈنگ روم کی کوٹھڑی  کے بعد اس نے محلہ پری محل کی ایک نا مکمل عمارت کی سیڑھیوں کی ڈیوڑهی پر اپنا ڈیرہ جما لیا۔ یہ عمارت شاعر ساجد انبالوی کی تھی۔ وہ سارا دن شہر کی سڑکوں پر ننگے پیر گھومتا رہتا اور رات سیڑھیوں والی ڈیوڑھی میں سو جاتا۔ ساجد انبالوی کی ڈیوڑھی میں ساغر نے کافی عرصہ گزارا۔ ساجد انبالوی نے بعد میں ساغر پر الزام لگایا تھا کہ جب وہ میری ڈیوڑھی میں رہتا تھا تو میرا دیوان چوری کر کہ لے گیا تھا جس پر ساغر صدیقی کو بہت رنج ہوا لیکن بعد میں ساجد انبالوی نے یہ الزام واپس لے لیا تھا۔ اس کے بعد اس کا ٹھکانہ نگار سینما کے احاطے میں بنی ایک کوٹھری تھی۔ اس کوٹھری  کی حالت کسی جیل سے کم نہ تھی جہاں ساغر صدیقی سکون سے اپنی زندگی کے دن گزار رہا تھا۔ اسی دوران ساغر نے ایک مشاعرے میں شرکت کی جہاں قدیر شیدائی  اسے ڈھونڈنے کے بعدزبردستی لے گیا اور کچھ دن اسے اپنے ساتھ رکھا اور اس دوران وہ اپنی غزلوں کی اصلاح ساغر سے کروالیتا تھا۔ اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کچھ عرصے بعد وہ اپنا ٹھکانہ بدل لیتا۔ مشاعرے سے آنے کے بعد وہ کافی دن تک لوگوں کی نظر سے اوجھل رہا اور پہلے سے زیادہ عجیب انداز میں لوگوں کے سامنے آیا۔ اس کے میلے اور پھٹے ہوئے کپڑوں کی جگہ سیاہ چادر نے لے لی تھی۔ اب اس کا ٹھکانہ صابر شاہ کا تکیہ تھا جہاں رہ کر اس نے فلم جبرو کے لیے ایک گانا لکھا جو بہت مشہور ہوا۔ اب اس نے صابر شاہ کے تکیہ کو خیر باد کہہ کر سڑکوں پر مدہوشی کے عالم میں کندھے پر بوری لٹکائے پھرنا شروع کر دیا۔ ساغر صدیقی نے خود کو  دنیا سے الگ کر لیا تھا اب وہ کسی بھی مشاعرے  میں نہیں جاتا  تھا۔ اگر کہیں کوئی مشاعرہ ہوتا تو اس کے چاہنے والے اسے شہر کی گلیوں میں ڈھونڈتے اور زبردستی لے جاتے۔ وہ اپنے اسی پھٹے ہوئے میلے کچیلے کپڑوں میں مشاعرہ کرتا اور لوگوں کے دل جیت لیتا۔ خود کو مشاعروں سے الگ کرنے کی ایک وجہ جہاں اس کا حلیہ تھا وہی دوسری وجہ اس کا کلام تھا جسے لوگ خریدنے لگے تھے۔ رحم سائیں کے تکیہ میں رہتے وقت لوگ اسے اصلاح کے بہانے ہوٹلوں پر لے جاتے اور ایک کپ چائے اور سگریٹ کے عوض اس سے کلام خریدتے اور مشاعروں میں اپنے نام سے پڑھ کر شہرت حاصل کرتے۔ ساغر صديقی ان لوگوں سے خود کو چھڑا کر کر کئی دن تک خود کو کوٹھری میں بند کر لیتا۔ رحم سائیں کے تکیہ بعد اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا وہ درد بدر کی خاک چھانتا رہا اس دوران اسے مبارک علی مل گیا اور وہ زبردستی اسے اپنی بیٹھک میں لے آیا اور ایک کمرہ ساغر کو دے دیا جہاں مبارک علی نے ساغر صدیقی کے لیے مدہوشی کے سامان کا  بندوبست کیا اور اس کا حلیہ بھی درست رکھتا۔ مبارک علی اسے زبردستی نئے کپڑے پہناتا جوتے پہناتا لیکن وہ اپنے کپڑے اتار کر سیاہ چادر خود پر لپیٹ لیتا، جوتے اتار کر ننگے پیر گھومنے لگتا۔ لوگ اسے سمجھا بجھا کر نئے کپڑے اور جوتے دیتے کچھ دن وہ اچھی حالت میں نظر آتا اور پھر خود ہی کپڑے اور جوتے اتار کر اپنے پسندیده حلیہ میں آجاتا۔ ساغر نے مبارک علی کی بیٹھک میں رہتے ہوئے پھر سے شعر کہنا شروع کر دیے تھے اور وہیں اس نے فلم دو آنسو کے لیے بھی گیت لکھے۔ فلم کے گیت لکھنے کے بعد اس نے پھر سے خود کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل کردیا تھا۔ ایک روز مارفیا کے اڈے پر چھاپے کے دوران ساغر کو گرفتار کیا گیا تھا اس اڈے پر ایک فاطمہ نام کی عورت بھی رہتی تھی فاطمہ کا ذکر فرانسیسی ناول نگار  ژولیان نے اپنے ناول "ساغر" میں بھی کیا تھا جو انہوں ساغر صدیقی کی زندگی پر لکھا تھا۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ساغر صديقی کا اپنی منگیتر سے شادی نہ ہونے پر یہ حال ہوا تھا لیکن یہ سب من گھڑت کہانیاں ہیں۔ تین ماہ جیل میں رہنے کے بعد جب وہ باہر آیا تو ان لمحوں کی اذیت نے اسے مزید جھکا دیا تھا۔ اب وہ قیصر سرائے  کے ایک کمرے میں رہنے لگا جہاں اس نے  کافی عرصہ گزارا اور کئی غزلیں لکھیں۔ کچھ وقت بعد اسے فالج کا اٹیک ہوا جس سے اس کا دایاں ہاتھ ہمیشہ کے لیے بیکار ہو گیا۔  وہ اکثر ریڈنگ روم، آستانہ قلندریہ اور لوہاری دروازے کے آس پاس نظر آتا۔ اس نے اپنی زندگی کے آخری روز داتا گنج بخش کے مزار پر  گزارے۔ اپنے آخری دنوں میں اس نے سیاہ چادر اتار کر سفید کرتا پجامہ پہن لیا تھا۔اس کا جسم سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا اور اسے خون کی الٹیاں لگنا شروع ہوگئیں اور وہ اسی طرح خون اگلتے ہوئے میں 19 جولائی 1974 کو فٹ پاتھ پر دم توڑ گیا۔ کچھ لوگوں نے مل کر اسے میانی قبرستان میں دفن کر دیا۔۔

یوں ایک باب اپنے اختتام کو پہنچا۔۔

             ساغر صدیقی کے شعری مجموعوں میں خشت میکدہ، لوح جنوں، شب آگہی، شیشہ دل، غم بہار، مقتل گلی اور زہر آرزو شامل ہیں۔

چمن پہ دام پہ درویش مسکراتا ہے

ہر اک مقام پہ درویش مسکراتا ہے

صراحی بزم میں جب قہقہے اگلتی ہے

سکوت جام پہ درویش مسکراتا ہے

ہزار حشر اٹھا اے تغیر دنیا

تیرے خرام پہ درویش مسکراتا ہے

شفق میں خون شہیداں کارنگ شامل ہے

فروغ شام پہ درویش مسکراتا ہے

کبھی خدا سے شکایت کبھی گلہ خود سے

مذاق عام پہ درویش مسکراتا ہے

ہوس مشیر ہو جس بادشاہ کی ساغر

تو اس غلام پہ درویش مسکراتا ہے

(اس غزل کے بعد سے لوگ اسے درویش کہہ کر پکارنے لگے تھے)۔


**********

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.