Type Here to Get Search Results !

روبرو ( آن لائن مباحثہ )



میزبان   :   اطہر کلیم انصاری
               مہمانان   :  

                             زیب النسا زیبی صاحبہ

                             ثریا حیا صاحبہ

                            تبسم حجازی صاحبہ

                            جبین نازاں صاحبہ

                            حمیرا علیم صاحبہ 

اطہر کلیم: ماہنامہ اقراء کے خاص سلسلے "روبرو" میں آپ تمام معزز خواتین کا استقبال ہے..آئیے اب زیادہ تاخیر نہ کرتے ہوئے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں.. آپ تمام نے ہی اپنی اپنی فیلڈ میں بہت نام بنایاہے اور کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں.. مگر انٹرویوز کی یہ روایت رہی ہے کہ آغاز اسی ایک سوال سے ہوتا ہے.. میں چاہتا ہوں کہ آپ سبھی، اقراء کے قارئین کے لئے اپنا مختصر تعارف پیش کردیں..

زیب النساء زیبی: میرا نام زیب النساء اور زیبی تخلص ہے۔ شاعرہ،افسانہ نگار، مترجم کالم نویس،محقق، نقاد، ناول نویس اسکالر ،ماہر تعلیم ہوں۔ سابق افسر اطلاعات حکومت ِ سندھ کراچی رہ چکی ہوں۔ ادب کی ہر صنف پر قربیا دس ہزار صفحات پہ مشتمل پانچ ضخیم کلیات کی خالق ، جن میں سو کتب کا مسودہ یکجا کیا گیا ہے ۔ میری علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں کراچی میں ایک روڈ "’’زیب النساء زیبی روڈ ‘‘" میرے نام سے منسوب کیا گیا ہے ۔شعری •صنف"سوالنے" کی موجد ہونے کا اعزاز بھی مجھے حاصل ہے۔میرے کام پر کئی ایم فل ، ایم اے اور بی ایس کے مقالہ مکمل ہو چکے ہیں۔ انڈیا میں دہلی یونورسٹی میں ’’خوشبو پروین‘‘ نے اپنے P.H.D. کے مقالے میں میری رباعیات کی کتاب" یاد کے موسم " کو اپنی تحقیق کے موضوع میں شامل کیا ہے۔جبکہ اکادمی ادبیات کراچی کے تعاون سے میرے " فن و شخصیت "پہ ایک 800 صفحات کی کتاب شائع کی گئی ہے۔

ثریا حیا: ثریاحیا،بنیادی اعتبار سے میں ایک شاعرہ ہوں۔ مگر نثر میں بھی ادبی خدمات سرانجام دی ہیں۔۔دنیائے ادب میں 1970 میں قدم رکھا۔میرا تعلق دہلی کے ایک ادبی خانوادے سے ہے جس میں اخلاق احمد دہلوی۔۔ولی اشرف۔۔ اشرف صبوحی۔ بیگم برلاس جیسے کئی اہلِ قلم شامل ہیں۔۔میرے دو شعری مجموعے کشتِ جاں اور رنگ باتیں کریں کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔۔ مختلف موقر اخبارات و رسائل میں ادبی خدمات انجام دیں اور میرے مضامین وکلام چھپتا رہا۔۔ان میں جنگ۔ اخبارِ خواتین۔۔ لیل ونہار۔الفتح۔۔نیرنگِ خیال۔ تخلیق۔ جائزہ اور سویراشامل ہیں۔۔محترمہ سلطانہ مہر صاحبہ کی معاونت میں ادبی میدان کی کئی منزلیں طے کیں۔۔محترم سحر انصاری،محسن بھوپالی، وحیدہ نسیم، محمود شام اور ایسے کئی اہلِ قلم کی ہمراہی میں ادبی سفر طے کیا، عرصہ بیس سال تدریسی فرائض سرانجام دئیے۔۔قومی نعت کانفرنس کے مجلّے مدحت میں نعت گوئی قدم بقدم کے عنوان سے میرا مقالہ شامل کیا گیا ہے جو میرے لیئے ایک اعزاز ہے۔۔تین درسی کتب تحریر کیں۔۔ جو کراچی لاہوراور اسلام آبادمیں کئی تعلیمی اداروں کے نصاب کا حصہ ہیں۔

جبین نازاں: کچھ عرصے قبل لکھنے کی ابتدا ہوئی سب سے پہلے میں نے ایک افسانہ تحریر کیا جو مقامی اخبار میں شائع ہوا ۔ بنیادی طور پر میں نثر ہی لکھا کرتی ہوں ۔۔افسانے، کہانیاں ، انشائیے، سیاسی/ ادبی مضامین مقالے وغیرہ ۔۔ نثری نظمیں بھی لکھتی رہی ہوں جو وقتاً فوقتاً اخبارات و رسائل کی زینت بنتے رہے ہیں۔ چوں کہ میرا شمار ابھی مبتدی میں ہوتا ہے لہذا اب تک کوئی کتاب منظر عام پہ نہیں آئی۔امید ہے مسقبل میں ان شاء اللہ انشائیے اور افسانوں کا مجموعہ شائع ہوگا۔

حمیرا علیم: حمیراعلیم۔بلاگر، کالم نگار، ناولسٹ، داعی ہوں۔ ایک انٹرنیشنل دعوۃ تنظیم کے ساتھ بطور رضاکار کام کر رہی ہوں۔ میں کوئی تجربہ کار مصنف نہیں بلکہ ایک حادثاتی لکھاری ہوں۔ایک ویب سائٹ پر اپنے والد کے ناولز لکھنے سے آغاز کیا۔کچھ ٹاپکس پرخود بھی لکھا توقارئین نے پسند کیا اور ایک سینئر مصنف کے کہنے پر ڈائجسٹس، میگزینز اور سائٹس پر تحاریر بھیجیں تو شائع ہوگئی۔اب الحمدللہ بہت سے قومی اور بین الاقوامی رسائل،میگزینز، ویب سائٹس اور اخبارات میں میری تحاریر شائع ہو رہی ہیں۔

تبسم حجازی: میں تبسم حجازی ، میرا تعلق بنیادی طور پر انڈیا کے شہر ممبئی سے ہے۔ سافٹ ویئر انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سان فرانسسکو میں بطور انجینئر جاب کر رہی ہوں ۔ بچپن سے گھر اور اسکول میں ادب پرور ماحول ملا اور اسی لئے ایک ٹیکنکل فیلڈ سے تعلق رکھنے ، ورکنگ ویمن ہونے اور دیار غیر میں برسوں سے مقیم ہونے کے باوجود قلم اور کتاب سے تعلق قائم رہا ۔ رسائل، اخبارات اور سوشل میڈیا پر مختلف موضوعات پر اظہار خیال کرتی رہتی ہوں۔ تبصرے ، سفر نامے اور شخصیات پر لکھنا پسند کرتی ہوں۔ میری پہلی تصنیف "’’سری ادب کا پہلا اور آخری آدمی ‘‘ 2021 میں منظرِ عام پر آچکی ہے اور انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک میں شائع ہوچکی ہے۔


جریدہ النساء کا اولین شمارہ دیکھنے کے لئے یہاں کلک کریں.

اطہر کلیم:  ماشاءاللہ! آپ سبھی نے مختصر مگر جامع تعارف پیش کیا جس سے مجھے آپ کی شخصیات کا بخوبی اندازہ ہوگیا. میرا پہلا سوال آپ سبھی سے ہے، آپ میں سے کچھ ورکنگ وومین ہیں اور گھریلوں ذمہ داریاں تو ہر ایک کے ساتھ لگی ہیں. تو آپ تخلیقی سرگرمیوں کے لئے وقت کیسے نکالتے ہیں؟ نیز کبھی تخلیق ادب کے باعث دیگر ذمہ داریوں سے ’کمپرومائز‘ کی نوبت آئی ہے؟

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے تبسم حجازی صاحبہ سے مزید ایک نکتے پر گفتگو کرنا چاہوں گا کہ ان سارے مسائل کے علاوہ آپ کے ساتھ مزید ایک مسئلہ وقت کا بھی ہے.. چونکہ اردو سے متعلق زیادہ تر سرگرمیاں بر صغیر میں ہی ہوتی ہیں جن میں آپ کو آن لائن جڑنا پڑتا ہوگا.. اس مسئلے کو کس طرح آپ مینیج کرتے ہیں اور اس دوران کن دقتوں کا آپ کو سامنا کرنا پڑتا ہے؟

ثریا حیا: بہت دلچسپ سوال ہے۔۔جہاں تک ورکنگ وومن کا سوال ہے تو ایک بات بتاتی چلوں کہ میں عمر کے76 سال پورے کر چکی ہوں کافی عرصہ تدریس کے بعد اب ریٹائرمنٹ کی عمر گزار رہی ہوں ۔۔اب آتی ہوں گھریلوذمہ داریوں کی طرف تو میں سب سےفارغ ہو چکی ہوں پانچ بیٹیاں اپنے گھروں کی ہو گئیں۔ایک بیٹا ہےاس کے اور بہو کے ساتھ رہتی ہوں، بس گھرمیں ایک بزرگ اورنگراں کی حیثیت ہے۔ اسی لیئے ادبی تقریبات میں شرکت کرتی ہوں لکھنے کا عمل تا ہنوز جاری ہے تیسرےشعری مجموعے کی تیاری ہے۔۔تخلیقی سرگرمیوں کے سلسلے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔۔جب شوہر تھے تو ان کی معاونت حاصل تھی اب میرے بچے بہت محبت کے ساتھ تعاون کرتےہیں۔

حمیرا علیم: الحمد للہ سب اچھے سے مینیج ہو جاتا ہے ۔کیونکہ میں پڑھائی کے ساتھ جاب، دعوۃ کا کام اور کچھ نہ کچھ کرتی ہی رہی ہوں اس لیے ملٹی ٹاسکنگ مسئلہ نہیں۔میں دن میں سب کام کرتی ہوں۔اور رات کو لکھتی ہوں۔۔۔ نہیں کبھی ایسا موقعہ نہیں آیا کیونکہ میرے لیے لکھنا ایک ہابی یا ٹائم پاس ہے اور اپنی ذمہ داریاں پہلی ترجیح۔اس لیے میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے لکھنا چھوڑ دیتی ہوں۔

زیب النساء زیبی: ایک تخلیق کار کے لیے وقت کی کمی کبھی مسلہ نہیں بنتی جب آپ پہ نزول ہوتا ہے تو کا غذ قلم خود بہ خود بھرتے چلے جاتے ہیں میں نے دس ہزار کے قریب صفحات پانچ کلیات کی شکل میں تحریر کیے ہیں اور قلم اب رکتا نہیں۔۔ میری پہلی تر جیح میرے شوہر، گھر، بچے رہے ہیں۔ شہرت کے پیچھے کبھی وقت کا زیاں نہیں کیا۔جاب بھی کی، گھر بھی،بچے بھی اور تدریس ،سوشل ورک بھی۔۔ سیاست بھی، تقاریر بھی سب کچھ از خود مینج ہوجاتا تھا بس گھر والوں نے خاص کر شوہرنے بہت ساتھ دیا۔۔ آج میں جو کچھ بھی والدین کے بعد شوہر کی سپورٹ کی وجہ سے ہو ں میں بارہ چودا گھنٹے مستقل لکھتی رہتی ہوں۔ اب صحت کی وجہ سے اور شوہر کی جدائی کے سبب دنیا سے دل اٹھ گیا ہے۔ ہر شے نا پائیدار ،فانی لگتی ہے ۔کتابیں ایوارڈ ز سب بے مصرف محسوس ہوتے ہیں یوں بھی میں نے کبھی پیسےیا شہرت کےلیے نہیں لکھا ،نہ یہ میرا مشغلہ ہے۔ یہ میرا مشن ہے، مقصد ہے ۔میری تخلیق مثبت ہو پڑھنے والوں کو کوئی رہنمائی مل سکے میں مشاعروں میں عشقیہ کلام نہیں پڑھتی ۔نہ مجھے واہ واہ کی خواہش ہوتی ہے۔ قلم میرے ہاتھ میں اللہ کی طرف سے امانت ہے سو کبھی لکھنے سے پیچھے نہیں ہٹی۔


ماہنامہ اقراء کا تازہ شمارہ دیکھنے کے لئے یہاں کلک کریں. 


تبسم حجازی: بڑا عمدہ سوال ہے۔اس سوال کا سامنا خواتین کو ہمیشہ کرنا پڑتا ہے خواہ وہ کسی بھی شعبہ سے ہوں۔لیکن میں اگر اس سوال کا تجزیہ کروں تو کہہ سکتی ہوں کہ خواتین ورکنگ ہوں یا ہاؤس وائف، وہ ہمیشہ اپنی فیملی اور خانگی ذمہ داریوں کو اپنے تخلیقی کاموں پر ترجیح دیتی ہیں۔اگر اپنی بات کروں تو ورکنگ ویمن ہونے کی وجہ سے یقیناً یہ چیز مزید مشکل ہو جاتی ہے۔۔۔خاص کر جب جاب کی نوعیت ادبی ماحول سے یکسر مختلف ہو تو تخلیقی کام جاری رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

میں نے بچوں کے ابتدائی سالوں میں اپنے تخلیقی کاموں کو محدود رکھا۔۔وقت کے ساتھ ساتھ بچے ذمہ داریوں میں اپنا حصہ ڈالنے لگے تو تخلیقی کاموں کے لئے وقت ملنے لگا ۔۔چونکہ جاب پر کام منظم طریقہ سےکرنے کی عادت رہی ہے اس لئے جاب، گھریلو کام اور لکھنے کے اوقات متعین رکھنا مشکل نہیں ہوا ۔کتاب کی اشاعت کے فائنل دنوں میں وقت کی مینجمنٹ میں کچھ دشواری ہوئی لیکن گھر والوں کی بھرپور معاونت نے اس کام کو ممکن بنادیا۔

وقت کا مسئلہ کچھ مشکل تو پیدا کرتا ہے کیونکہ برصغیر اور یہاں کے اوقات میں دن رات کا فرق ہے۔ لیکن میں ایک طویل عرصہ سے یہاں ہوں۔فیملی سے اور جاب کے لئے مختلف ٹائم زون میں رہنے والوں سے گفتگو رہا کرتی ہے اس لئے تخلیقی کاموں کے لئے بھی وقت ایڈجسٹ ہوجاتا ہے اور پھر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذرائع نے پچھلے دس پندرہ سالوں میں دنیا کو سمیٹ لیا ہے ۔اس کی مثال یہ مباحث ہے جس میں بیک وقت تین ممالک کے لوگ شریک ہیں۔ اور اسی طرح کچھ آپ جیسے لوگوں کی معاونت بھی رہی کہ وہ میری سہولت کے حساب سے وقت نکال لیتے ہیں۔ ہاں دور ہونے کے باعث بر صغیر میں ہونے والی بہت سی ادبی سرگرمیوں کا حصہ بننے کا موقع نہیں مل پاتا تھا لیکن آج کل آن لائن ایونٹس نے وہ دکھ کچھ کم کردیا ہے۔اب وقتاً فوقتاً میں مختلف ادبی تقریبات میں شامل ہوتی رہتی ہوں۔

جبین نازاں: ایک خاتون تخلیق کار کے لیے اگر گھر کے تمام افراد (مثلاً والدین سے لے کر شوہر تک ) کا تعاون حاصل ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ۔۔ ایک خاتون لکھاری کے لیے مسائل اس وقت پیش آتے ہیں ، جب گھر کا ماحول ادبی نہ ہو۔۔اس وقت ایک خاتون قلم کار اپنے شوق کو پس پشت ڈالتی ہے۔ یا پھر گھروالوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے فن کو زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ کتنی خواتین قلم کار سے میرا رابطہ ہوا 'مصاحبہ کے دوران 'میں جو گھریلو ذمہ داریوں کے پیش نظر ادبی سر گرمیوں سے دستبردار ہوچکی ہیں۔ ان میں سے کئی، چند سال تعطل کے بعد لکھنے کی جانب دوبارہ متوجہ ہوئیں ۔۔لیکن درمیان میں جو وقفہ آیا ۔۔اس کا ازالہ نہ کرسکیں ۔۔ ادبی 'ریس 'میں اپنے ہمعصروں سے بچھڑ گئیں۔ بحیثیت ایک خاتون لکھاری ۔بیک وقت کئی ذمہ داریاں نبھارہی ہوتی ہے، امور خانہ داری ، ملازمت پیشہ ہوتو ملازمت ، اور پھر لکھنے کے علاوہ دیگر ادبی سرگرمیاں ۔۔اب ایک عورت" ٹارزن تو ہوتی نہیں۔" بیک وقت ساری ذمے داریاں خوش اسلوبی سے انجام دے۔ ہاں البتہ ہزاروں میں کسی ایک کو اللہ عزوجل خصوصی طور پہ نوازتا ہے۔ تو وہ "یکتائے زمانہ ہوتی ہیں۔ ایسی بھی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔

اطہر کلیم:  آپ نے بالکل صحیح کہا کہ بیک وقت تمام ذمہ داریوں کو نبھانا قطعی آسان نہیں ہے.. گھر کا ماحول ادبی نہ ہو تو اہل خانہ سے تعاون ملنا بھی مشکل ہوتا ہے۔۔ مناسب معلوم ہو تو یہ بتائیے کہ آپ نے لکھنے کی ابتدا کس طرح کی اور آپ کو متعلقین و اہل خانہ سے کتنا تعاون حاصل رہا؟

جبین نازاں: اللہ کا شکر کہ مجھے میرے والدین اور بھائی بہنوں کا بھر پور تعاون حاصل رہا ہے اب تک ۔۔زیادہ عرصہ نہیں ہوا مجھے لکھتے ہوئے۔۔  چند برسوں سے لکھ رہی ہوں۔

اطہر کلیم:  زیبی صاحبہ! میں اسی بات کو ذرا اور آگے بڑھاؤں گا۔۔ آپ نے کہا کہ آپ بارہ تیرہ گھنٹوں تک مسلسل لکھتی رہی ہیں، ایسے میں دیگر ذمہ داریوں کے لئے وقت نکالنا تو قدرے مشکل ہوتاہوگا.. پھر آپ نے ان ساری چیزوں کو کیسے مینیج کیا؟

زیب النساء زیبی: ایک دن رات میں 24 گھنٹے ہوتے ہیں میں اپنے کاموں کو دن رات میں تقسیم کر لیتی ہوں سالن رات کو کبھی بنا لیا روٹی چلتے پھرتے ڈال لی۔۔  جاب کے دوران جو وقت ملا اس میں قلم ہاتھ میں رہا میرے جوب کی نوعیت بھی لکھنے پڑھنے کی رہی۔ میں سرکاری محکمے میں افسر اطلاعات تھی، میں نے ایک دن میں پچاس صفحے کا ناولٹ بھی لکھا ہے، ایک ماہ میں حمد و نعت اسلامی شاعری پہ کتاب لکھی ہے، زود نویسی اللہ کی دی ہوئی صلاحیت ہے میرا کوئی کمال نہیں میں نے ڈبل ایم اے بس کے سفر کے دوران کتاب پڑھتے ہوے کر لیا۔۔ سفر لمبا ہوتا تھا آفس جانے آنے میں دو سے تین گھنٹے مل جاتے تھے پھر سب سے بڑھ کے میرے شوہر نے بہت ساتھ دیا اور اللہ کی مدد درکار رہی۔

اطہر کلیم:  میں وقت کے مسئلے پر مزید گفتگو کرنا چاہوں گا۔۔ تبسم صاحبہ آپ نے کہا کہ آن لائن ایونٹس نے دکھ کم کردیا۔ مجھے لگتا ہے کہ آن لائن ایونٹس نے آپ کا دکھ بڑھایا ہے۔۔۔ اگر برصغیر میں دن کا کوئی آن لائن ایونٹ ہو تو آپ کو رات کی نیند کی قربانی دینی ہوگی۔۔ اسی طرح رات کے ایونٹس کا مسئلہ ہے۔۔ یہاں کے لوگ اپنی چھٹی اور سہولت کے اعتبار سے پروگرامس کرتے ہیں مگر آپ کے یہاں 180 ڈگری کا فرق آجاتا ہے۔ اس چیز کو کس طرح مینیج کرتی ہیں آپ؟

تبسم حجازی: دکھ بڑھانے والی بات سے اس حد تک اتفاق کرتی ہوں کہ سوشل میڈیا کے باعث وہاں ہونے والی ادبی نشستوں اور مشاعروں کی ویڈیوز ہر جگہ نظر آتی ہیں اور ان میں شرکت نہ کرنے کا دکھ سوا ہوجاتا ہے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ وہاں ہونے والے ایونٹس وہاں کے لوگوں کی سہولت سے طے ہوتے ہیں جو کہ ایک جائز بات ہے کیونکہ اکثریت وہیں سے ہوتی ہیں ہم جیسے اکا دکا لوگ بیرون ملک سے شرکت کرتے ہیں تو ہمیں کافی کمپرومائز کرنا پڑتا ہے ۔ اکثر ایونٹ ویک اینڈ کی شام کے اوقات میں ہوتے ہیں تو ہمیں ویک اینڈ پر صبح سویرے اٹھ کر دوسری مصروفیات ترک کر کے جوائن کرنا پڑتا ہے لیکن شوق اور دلچسپی کی خاطر کیا جاتا ہے تو ایسا مشکل کام نہیں ہے لیکن کئی بار سفر در پیش ہوں تو ساتھ لیپ ٹاپ وغیرہ لے کر نکلنا پڑتا ہے ۔۔ممبئی جیسے شہر سے تعلق ہونے اور لکھنے پڑھنے کے شوق کے باعث رات دیر تک جاگنے کی عادت بھی رہی ہے اس عادت نے وقت کی مینجمنٹ کسی حد تک آسان کردی ہے ۔

اطہر کلیم:  ثریا صاحبہ جب آپ ان ساری ذمہ داریوں سے گھری ہوئی تھیں تب آپ کس طرح ٹائم مینیجمنٹ کرتی تھیں؟ کیوں کہ ہمارے اس مباحثہ کا مقصد ہی یہی ہے کہ نئے قلمکار، ان مسائل اور چیلنجز سے آگاہ ہوں اور آپ لوگوں کے روٹین سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر اپنے لئے راہ آسان کریں۔۔

ثریا حیا: میں نے 1970 سے لکھنے کا آغاز کیا والدین کی معاونت شاملِ حال رہی اور ذمہ داریاں بھی اس وقت کم تھیں 1971 میں شادی کے بعد تھوڑا تعطل آیا مگر ایسا نہیں ہوا کہ لکھنا بالکل چھوڑ دیا ہو۔شوہر کی معاونت ہمیشہ ساتھ رہی۔لکھنے کےلئے رات کا وقت منتخب کیا اس زمانے میں سوشل میڈیا، موبائل، فیسبک جیسی علّتیں نہیں تھیں۔وہ کتب بینی کا دور تھا مطالعہ صبح کیا کرتی اور لکھنے کا کام رات کو کرتی تھی۔پھر 1976 میں سعودی عرب چلی گئی کچھ ذمہ داریاں بڑھ گئیں۔مگر شوہرمشفق ومہربان تھے ہر طرح تعاون کیا یوں لکھتی رہی۔۔سعودی عرب میں اس زمانے میں ادبی سرگرمیاں نہیں ہوتی تھیں زیادہ باہرآنا جانا نہیں ہوتاتھا تو وقت کافی مل جاتا تھا۔سعودی عرب سے واپس آئی تو بچے بڑے ہوگئے تھے اور میرے لیئے لکھنے اور ادبی سرگرمیوں کے لئے وقت نکالنا مشکل نہیں رہا۔

تبسم حجازی: زیب النسا صاحبہ اور ثریا حیا صاحبہ آپ دونوں کے جوابات سن کر بہت خوشی ہوئی۔ آپ لوگوں کی ادب کے تئیں ایسی لگن اور محنت قابل فخر اور دیگر قلم کار خواتین کے لئے مشعل راہ بھی ہے کہ وہ کس طرح گھریلو اور تخلیقی ذمہ داریاں میں توازن رکھ سکتیں ہیں۔ اور یہ درست کہا کہ اس دور میں موبائل انٹرنیٹ اور ٹی وی نہ ہونے کے باعث وقت کی دستیابی بہتر تھی۔ آج ٹیکنالوجی نے جہاں بہت سے کام آسان کردئیے ہیں وہیں ہمارے اپنے  وقت پر سے ہمارا کنٹرول ختم کردیا ہے اب ہم ان چیزوں کو نہیں چلاتے یہ ہمیں کنٹرول کرتی ہیں۔

اطہر کلیم:  حمیرا صاحبہ! کبھی آپ نے لکھنے کو بھی ذمہ داری سمجھا یا نہیں؟ کیوں کہ جہاں تک مجھے علم ہے آپ زیادہ تر سبق آموز کہانیاں اصلاحی تحریریں لکھتی ہیں۔ اور یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔۔ اگر آپ نے اسے ذمہ داری سمجھ کر کیا ہے تو کیا اس ذمہ داری کو کبھی دوسری ذمہ داریوں پر ترجیح دی ہے یا ہمیشہ ترک ہی کیا ہے؟

حمیرا علیم: سچ کہوں تو میرا لکھنے کامقصد ہی درست اسلامی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانا ہے۔میں بہت کم خواتین مصنفین  کی تحاریر پڑھتی ہوں کیونکہ بیشتر کہانیاں ڈھیر سارے کزنز، لو افئیرز، شادی مہندی پر ناچ گانے مخلوط محافل اور دیگر غیر شرعی رسوم و رواج پر مبنی ہوتی ہیں۔اور مجھے ہمیشہ ایسی کہانیوں پر حیرت ہوتی تھی۔اس لیے جب بھی قلم۔اٹھایا کسی سماجی مسئلے کے متعلق ہی لکھا اور اس کو اسلامی نقطہ نظر سے بیان کیا ہے۔مزے کی بات بتاؤں میں نے خواتین کے ایک ڈائجسٹ میں اپنی کچھ تحاریر بھیجیں اور ان کے متعلق پوچھنے کے لیے فون کیا تو خاتون ایڈیٹر نے فرمایا: " ’’ہم کہانیاں شائع کرتے ہیں اسلامی لیکچر نہیں۔‘‘اگرچہ میں کوئی ادیب یا تجربہ کار مصنف تو نہیں مگر میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ میں ہمیشہ کوئی سبق آموز کہانی ہی لکھوں۔ میں بے خوابی کی مریض ہوں تو رات کو وقت گزاری کے لیے لکھتی رہتی ہوں۔لیکن اپنی ذمہ داریاں پہلے پوری کرتی ہوں پھر ہی لکھتی ہوں۔کیونکہ لکھنا ایک شوق یا ٹائم پاس کہہ سکتے ہیں۔تقریبا دو سال ہو گئے ہیں روزانہ ہی لکھ رہی ہوں۔ بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی مہمان آ جائیں یا طبیعت خراب ہو تو نہ لکھ پائی ہوں۔اگر کوئی خاص ایونٹ ہو اور کوئی ایڈیٹر کسی خاص ٹاپک پر لکھنے کے لیے کہہ دیں تو ضرور لکھ کر دیتی ہوں خواہ کچھ بھی ہو۔ آج کل میری والدہ کی طبیعت بہت ناساز ہے تو ان کی تیمارداری، مہمانوں کو ٹریٹ کرنا گھر کے کام کاج میں مصروف ہوں اس لیے بالکل بھی نہیں لکھ پا رہی ۔بلکہ موبائل دیکھنے کا بھی ٹائم نہیں ہے۔

تبسم حجازی: حمیرا صاحبہ آپ کا مقصد نیک ہے لیکن آپ کی رائے سے اتفاق نہیں رکھتی۔ ادب برائے ادب ہونا چاہیے یا ادب برائے زندگی یہ ایک تفصیلی بحث ہے۔ لیکن میری دانست میں ادب کا بنیادی مقصد ایک صحت مند تفریح فراہم کرنا ، اپنے معاشرے کی ایمانداری سے عکاسی کرتے ہوئے اس کے مثبت اور منفی پہلو بیان کرنا ہوتا ہے چاہے وہ ادب عالیہ ہو یا پاپولر فکشن۔ یہ درست ہے کہ آج کل کی تحریروں کا معیار وہ نہیں رہا لیکن عفت موہانی سے عمیرہ احمد تک ہماری خواتین ناول نگاروں نے معاشرتی مسائل اور دیگر موضوعات پر خوب لکھا ہے اور ہلکی پھلکی تفریح کے ساتھ لڑکیوں کی ذہنی تربیت میں بھی حصہ ڈالا ہے ۔مثال کے طور پر عمیرہ احمد کا لکھا ناول ’’عکس‘‘ جو ایک ’’چائلڈ ابیوز‘‘ کا شکار ہونے والی لڑکی کی کہانی ہے جو میری دانست میں ہر لڑکی اور بیٹی کی ماں کو پڑھنا چاہیے۔ دوسری مثال اپنے فیورٹ رائٹر ابن صفی کی دوں گی جنہوں نے اٌس دور میں صاف ستھرا جاسوسی ادب پیش کیا جب اس صنف میں صرف فحاشی چلتی تھی ۔ان کے ناول اعلی معیار کی تفریح فراہم کرتے ہیں اور زبان و ادب کے ہر پیمانے پر مکمل اترتے ہیں۔ ابن صفی اسلامی اقدار پر لیکچر نہیں دیتے لیکن وہ اپنے کردار نگاری اور عمدہ برجستہ مکالموں سے لوگوں کی ذہن سازی کرتے ہیں۔۔

ثریا حیا:     تبسم !آپ کی رائے سے متفق ہوں ادب معاشرے کے مثبت اور منفی دونوں پہلو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ایک صحت مندمعاشرے کی تشکیل کے لئےضروری ہے زندگی کےہرشعبے کو سامنے رکھاجائے رہی بات میعاری اور غیر میعاری تحریروں کی وہ ہر دور میں ہوتی ہیں اوران ہی سے کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہوتی ہے۔

حمیرا علیم: تبسم حجازی! میں خود عمیرہ اور نمرہ کی فین ہوں۔ انہوں نے روایتی لو اسٹوریز سے ہٹ کر لکھا ہے۔ابن صفی بھی میرے فیورٹ رائٹر تھے بچپن سے لیکر آج تک ابن صفی اور دیگر رائٹرز کو پڑھا ہے۔میرا پوائنٹ آف ویو یہ ہے کہ میری تحاریر میرے اس زمین پر نقش ہیں جو میرے بعد بھی باقی رہیں گے۔اس لیے میں ہمیشہ ایسا کچھ لکھنے کی کوشش کرتی ہوں جو میرے لیے صدقہ جاریہ بنے۔باقی ہر شخص کی اپنی پسند اور پوائنٹ آف ویو ہے اختلاف رائے ہر ایک کا حق ہے۔

تبسم حجازی: جی بالکل اختلاف رائے سب کا حق ہے ۔۔ میں نے عمیرہ کے اس ناول کی تعریف کی جس میں معاشرتی موضوع پر قلم اٹھایا۔۔نمرہ کے انداز سے مجھے اختلاف ہے اور آپ نے ابن صفی کو پڑھا ہے تو اس اختلاف کی وجہ سمجھ جائیں گی کہ فکشن کو تفریحی ہونا چاہیے لیکچر نہیں۔ ابن صفی کے کردار تہجد گذار نہیں ہیں نہ ہی وہ اپنے ناولوں میں قرآن کی تفسیر بیان کرتے ہیں لیکن قاری تک صحیح اور غلط کا فرق پہنچا دیتے ہیں۔یہی ایک اچھے ادیب کی پہچان ہوتی ہے اور اسے زندہ رکھتی ہے ۔

حمیرا علیم: دراصل نمرہ بھی اسی ادارے سے پڑھی ہیں جس سے میں۔ تو ہماری تحاریر اسلامی مواد سے بھرپور ہوتی ہیں۔ ہر شخص کا اپنا انداز اور پوائنٹ آف ویو ہے۔ابن صفی کے ساتھ ساتھ قدرت اللہ شہاب اور اشفاق صاحب نے بھی اسلامی تعلیمات کو لائٹ اندازمیں پیش کیا ہے۔میرے خیال میں اگر قرآن و حدیث کے ریفرنسز کوٹ کیے جائیں تو زیادہ اثر ہوتا ہے۔اس لیے نمرہ اور عمیرہ ایسا لکھتی ہیں۔ہر رائٹر کی اپنی صنف اور انداز ہوتا ہے اور ہر ایک کی کوئی نہ کوئی چیز لاجواب ہوتی ہے۔یہ ضروری نہیں کہ ہر رائٹر کو سب ہی پسند کریں۔

ثریا حیا: حمیرا !میں آپ کی اور تبسم کی گفتگو میں مخل ہورہی ہوں۔۔ مگر رائے دینے کا اختیار استعمال کرتے ہوئے کہوں گی کہ آپ نے دو باتوں پر زور دیا ہے اسلامی مواد اور قران و احادیث کے حوالے۔۔ یہ دونوں تب ہی کارگر ہوتے ہیں جب ان کو سمجھنے والا قاری ہو۔ان پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دلانا ایک مشکل امر ہے۔۔ جس طرح ایک بچے کو مشکل سوال سمجھانے کے لئے کچھ آسان اور ہلکا پھلکا انداز اختیار کرنا پڑتا ہے بالکل اسی طرح اسلامی مواد اور قران واحادیث کو آسان بنانے کے لئے نئے اسلوب اپنائے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔آپ سے اختلاف نہیں ہے مجھے، معاشرےکی تشکیل میں مذہب کا بڑا دخل ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ اسے مشکل نہ بنایا جائے۔۔بات کو سمجھانے کے لئے اگر تفریحی۔۔۔ترغیبی اور اصلاحی جہت کو اپنالیا جائے تو زیادہ بہتر نتائج نکل سکتے ہیں ایک اچھا لکھنے والا ہمیشہ اسباب، نتائج اور حل کو سامنے رکھتا ہے۔

حمیرا علیم: جی بالکل میری کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی ٹاپک کو کہانی اور ناول کی صورت میں پیش کروں۔اور آپ سب کی رائے میرے لیے قابل احترام ہے۔

اطہر کلیم:  اب میں ایک حساس موضوع کی طرف بڑھ رہا ہوں۔۔ ہم نے اکثر طنزاً ایک بات سنی ہے کہ خاتون ہے تو محفلوں میں اضافی پروٹوکول ملنا لازمی ہے۔۔ آپ میں سے اکثر نے مشاعروں، ادبی نشستوں، آن لائن ایونٹس یا دیگر پروگراموں میں شرکت یقیناً کی ہوگی۔ اور یہ بھی سنا ہوگا کہ خاتون ہیں تو بڑھ چڑھ کر داد، تعریف اور اضافی پروٹوکول ملے گا ہی۔۔ اس میں کتنی حقیقت ہے نیز اس "’’ایکسٹرا پروٹوکول‘‘" کے پیچھے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پڑ سکتا ہے اس پر بھی روشنی ڈالئے۔

حمیرا علیم: میں نے اب تک کوئی ایونٹ تو اٹینڈ نہیں کیا۔ اس لیے ایسا کوئی تجربہ تو نہیں ہے۔ہاں جن سائٹس پر باقاعدگی سے لکھتی ہوں وہاں ہر طرح کے کمنٹس ملتے ہیں۔اچھے بھی اور برے بھی ۔اس لیے میرے ساتھ تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ہاں کچھ خواتین نے گروپس میں ایسے تجربات شیئر کیے ہیں کہ بعض اوقات کوئی شخص ایسا کر کے ہراساں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

تبسم حجازی: میں نے ادبی نشستوں اور دیگر ایونٹس میں شرکت امریکہ آکر کی اور یہاں ایسا کوئی تجربہ نہیں ہوا۔پچھلے سال انڈیا میں ایک نشست اپنی بک لانچ کے سلسلہ میں اٹینڈ کی تھی وہاں بطور خاتون لوگ احترام سے پیش آئے تھے لیکن ایکسٹرا پروٹوکول جیسی بات نہیں تھی۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے یہ بات کسی حد درست کہی جاسکتی ہے کیونکہ وہاں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں اکثریت علم وادب سے دور رہنے والوں کی ہوتی ہے۔ لیکن ادبی گروپس وغیرہ میں ایسا نہیں دیکھا بلکہ میرا مشاہدہ ہے کہ اکثر خاتون شاعرات کو لوگ مکمل سنجیدگی سے نہیں سنتے ۔

زیب النساء زیبی: اضافی داد و تحسین پروٹوکول ان خواتین کو ملتا ہے جو خود طلب کرنا چاہتی ہیں ۔۔۔ مرد حضرات کی خواہش ہوتی ہے کہ خواتین سےمخاطب ہوں ان کو شارٹ کٹ سے آگے بڑھنے میں مدد گار بنیں۔۔یہ خاتون پہ منحصر ہوتا ہے کہ وہ عورت ہونے کے ناطے کس سے کتنی توجہ اور سہولت چاہتی ہے ۔۔عزت و احترام اور بے جا داد و تحسین میں واضح فرق ہوتا ہے۔ جو خواتین اپنی ایک حد میں رہ کر مردوں سے رابطہ رکھتی ہیں وہ بظاہر تو الگ تھلگ محفل سے کٹی کٹی رہتی ہیں اور انہیں صرف اپنے ٹیلنٹ اور محنت کے بل پر مقام و مرتبہ بنا نا پڑتا ہے جو پائدار اور قابل ِ احترام ہوتا ہے اور یہی دراصل حقیقی کامیابی ہوتی ہے۔ عزت بنانے کے لیے ایک عمر چاہیے ہوتی ہے لیکن اپنے مرتبے سے نیچے گرنے میں لمحہ بھی نہیں لگتا۔۔ جو مدد اللہ کی طرف سے ملتی ہے وہ کوئی نہیں چھین سکتا ہے نہ دے سکتا ہے۔ ظاہری، دنیاوی کا میابی جو شارٹ کٹ سے حاصل کی جاے وہ سواے ندامت کے کچھ نہیں اور یہ عارضی ہوتی ہے۔۔۔ خاتون جب گھر سے نکلے تو شہرت و دولت اور مرتبوں کے بجاے صرف اپنی محنت اور عزت و احترام بڑھانے پہ توجہ دے، گو کہ یہ سراسر دیکھنے میں تو خسارہ ہے لیکن درحقیت یہی نیک نامی اصل کامیابی ہے۔

جبین نازاں: آپ نے حساس اور نہا یت عمدہ موضوع پر  دعوتِ فکر دی ہے۔اب تک میں کسی آن لائن مذاکرے اور مشاعرے میں شرکت نہیں کرسکی۔ لیکن مشاعرہ گاہ میں جو نظارہ دیکھتی رہی ہوں (خیال رہے ہندستان کے تناظر میں بات کررہی ہوں )جس کے متعلق کرشن چندر نے کہا تھا ، ’’خاتون اگر نثر بھی پڑھ دے، تو داد کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں ۔‘‘ کافی حد تک ان کی بات درست ہے۔  لیکن اہم سوال یہ کہ داد دینے والوں میں اکثریت مرد حضرات کی ہی ہوا کرتی ہے۔ قصور وار شاعرہ ہوئی نہ کہ داد دینے والے مرد ۔۔یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ خاتون کو اضافی پروٹوکول ملتا ہے، کبھی احتراماً کبھی شرارتاً ۔۔۔۔شرارتاً پر ایک شاعرہ کی بات یاد آئی ۔۔وہ ہندستان کی معروف شاعرہ ہیں۔ ان کے دو شعری مجموعہ اب تک شائع ہوچکے ہیں ۔ انھوں نے مجھ سے اپنے تجربات شئیر کرتے ہوئے ایک روز کہا۔ ’’مشاعرہ گاہ میں  شاعرہ کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے ، اسے دیکھ کر میری ہمت نہیں ہوئی کہ کبھی مشاعرہ پڑھوں۔‘‘ انھوں نے زندگی میں ایک بھی مشاعرہ نہیں پڑھا۔  حالاں کہ انھیں اکثرمشاعرے کی دعوت ملتی رہتی ہے۔ جس طرح ارد و ادب کی تیسری صاحبِ دیوان شاعرہ بشیر النساء بشیر(حیدرآباد) صاحبہ نے کبھی مشاعرہ نہیں پڑھا ۔ وہ نہایت پردہ نشیں خاتون تھیں ۔ نقاب لگا کر کار میں سفر کرتیں تو کار کے شیشے پہ کپڑا ڈال دیا جاتا تھا۔ ان کی تصویر آپ کو کہیں نہیں ملے گی ۔ بشیر النساء بشیر مشاعرہ اپنے گھر پر منعقدکیا کرتیں تھیں ۔ جن میں صرف اور صرف خواتین کی شمولیت ہوا کرتی تھی۔ یہی پروٹوکول مشاعرہ میں زوال کی ایک اہم وجہ مانی جاتی ہے۔ ہر مشاعرے میں ایک شاعرہ کی شمولیت "آئٹم گرل " جیسی بن کر رہ گئی ہے۔ مشاعرے سے  شاعرہ ندارد ۔۔اور متشاعرات کی جلوہ گری ہے۔ جو حقیقی اور جینیوئن شاعرات ہوتی ہیں وہ مشاعرہ گاہ میں نظر نہیں آتیں۔ ہمیں اس پہلو پر غور وفکر کرنا ہوگا۔ یہ ان کے حقوق اور ادب کی پامالی ہے کہ آج کا مشاعرہ مافیا متشاعرات کو پروموٹ کرنے میں یقین رکھتا ہے۔

میں نے ہندستان کے تناظر میں بات کی ہے۔۔ مشاعرے کی کامیاب شاعرات ہمارے یہاں معروف ہیں ۔۔ان میں ایک دو کے سوا سب کی سب مانگے کی اجالا 'ہیں ۔۔پاکستان میں ہندستان جیسی صورت حال نہیں ۔۔وہاں مشاعرہ جینوئن شاعرات بھی پڑھتی ہیںاور متشاعرات بھی ۔یہاں سے بہتر صورت حال ہے پاکستان کی مشاعرے کے حوالے سے ۔۔میرا ماننا کہ جب ہم گفتگو کریں کسی بھی حوالے سے تو صورت حال حقیقی تناظر میں ہونا چاہئے۔۔۔ تبھی تدارک کی راہ آسان ہوسکے گی۔

ثریا حیا: میں 1970 سے اس میدان میں ہوں بے شمار مشاعرے۔تنقیدی و ادبی نشستوں میں شرکت کی۔اللہ کا کرم ہے کہ اس نے عزت واحترام سے نوازا۔۔اب بھی گاہے بگاہے ادبی محافل میں حصہ لیتی ہوں مگر کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ خاتون ہونے کی حیثیت سے عزّت دی جارہی ہے۔۔بحیثیت شاعرہ بہت قدر و منزلت ملی اور ہمیشہ ہی دادوتحسین ملی۔۔دراصل پروٹوکول اور احترام میں فرق ہے۔۔پروٹوکول بلاوجہ بھی مل جاتا ہے کبھی تعلقات نبھانے کے لئے،کبھی جان پہچان کی وجہ سے،کبھی خود کو نمایاں کرنے کے لئےاور کبھی خوشامد کرنے کی غرض سے۔۔میں یہ بھی کہوں گی کہ پروٹوکول صرف مرد نہیں دیتے خواتین بھی دیتی ہیں بلکہ زیادہ دیتی ہیں۔۔دوسری طرف احترام صلاحیتوں اور مذہبی جذبات کا ترجمان ہوتا ہے۔جس معاشرے میں عورت کو عزّت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ زندہ ومتحرک ہوتے ہیں۔۔مجھے کبھی اس سلسلے میں منفی روّیے سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔اچھی اور میعاری محافل میں لوگ ناجائز تعریف و توصیف کو ٹھیک نہیں سمجھتے۔بقدرِ فن دادوتحسین ان کاخاصہ ہوتی ہے۔۔۔ایکسٹرا پروٹوکول اچھے اور میعاری ادب کا دشمن ہوتا ہے۔۔کچھ خواتین از خود پروٹوکول کی طلبگار ہوتی ہیں اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ مرد حضرات اپنی فطرت کامظاہرہ کرتے ہیں۔۔میرا ماننا یہ ہے کہ ادب خود بولتا ہے اور ہر قسم کے پروٹوکول سے عاری ہوتا ہے۔

جبین نازاں: بلاشبہ ادب خود بولتا ہے۔ لیکن 70 کی بہ نسبت آج کی ادبی محافل محفل کا موازنہ آپ کرنا چاہیں تو نمایاں فرق پائیں گی ۔۔یہ میرا خیال ہے۔۔ اور یہ فرق ادبی اور اخلاقی سطح پر پست پائیں گی ۔۔میرا اندازہ درست ہے ؟ یا پھر میں غلط ہوں۔ ؟

ثریا حیا: کسی حدتک آپ کی بات درست ہے اگر میں اپنی ادبی مسافت کو تین ادوار میں تقسیم کروں تو ہر دورمیں اس اعتبار سے تھوڑا بہت فرق ہے۔1970 سے 1976 تک خواتین ان محافل میں کم کم نظر آتی تھیں اس لئے ان کو خاص توجہ دی جاتی تھی اس وقت مرد و عورت کی تخصیص کم نظرآتی تھی۔ پھر 1985 سے 2006تک کےدور میں خواتین بھرپور انداز میں ادبی پروگرام میں شامل ہوتی تھیں اس وقت تعقید و تعجیل کے مسائل سامنے آئے۔ منتظم اس معاملے میں اقرباء پروری کا مظاہرہ کرتے نظر آئے۔آپ چاہیں تو اسے پروٹوکول کہہ لیں مگر یہ سب کے ساتھ نہیں ہوا۔ جہاں صرف نمود و نمائش کو اہمیت دی جاتی وہاں ایسا ہوتا تھا تیسرا دور 2006 سے تا ہنوز۔۔یہ دور شہرت کے پیچھے بھاگنے کا دور ہے اب ادب کے نام پر بہت کچھ ہورہاہے۔۔لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گی کہ سب کچھ خواتین کے ہاتھ میں ہے۔۔آپ ایسی تقاریب میں شرکت نہ کریں جہاں ادب کا احترام نہ کیا جائے۔

اطہر کلیم:  ماشاءاللہ اس موضوع پر بہت زبردست اور سیر حاصل گفتگو ہوئی، دیگر موضوعات پر آنے سے پہلے میں اسی موضوع سے متعلق ایک اور مسئلے پر گفتگو کرنا چاہوں گا.. ہم نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ مشرقی عورت کا کردار ہمیشہ گھر گرہستی یا چھوٹی موٹی پوزیشن تک محدود، کُل ملا کر ایک کمزور کردار دکھایا جاتا ہے.. اول تو طاقتور کردار کے روپ میں عورت کو پیش ہی نہیں کیا جاتا.. یا کبھی پیش کرنا پڑ ہی جائے تو مغربی معاشرے کا کردار پیش کیا جاتا ہے.. آپ لوگوں کے خیال میں کیا یہ درست رویہ ہے یا اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے؟اور اگر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تو بطور قلمکار آپ نے اس بارے میں کبھی کوشش کی ہے؟؟؟

جبین نازاں: بہت اچھا ااور اہم نکتہ پیش کیا ۔پچھلے دنوں میں نے ایک افسانہ تحریر کیا ،بدچلن کے عنوان سے۔۔ اس میں ایک مضبوط لڑکی کا کردار پیش کیا۔۔ ایک صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے سوال جڑ دیا خود کو محفوظ رکھنے کے لیے 'شیرنی 'بننا ضروری ہے ؟ ایسا نہیں کہ مشرقی عورت کا مضبوط کردار نہیں پیش کیا گیا۔ وقتاً فوقتاً پیش کیا جاتا رہا ہے۔ جس طرح خواجہ احمد عباس نے "نندی" میں عورت کا مضبوط کردار پیش کیا ہے اور بھی کئی کردار ہیں۔ "اپنے دکھ مجھے دے دو "میں راجندر سنگھ بیدی نے پیش کیا ۔ممتاز شیریں نے 'انگڑائی میں، مشرف عالم ذوقی نے 'واپس لوٹتےہوئے، اکیسویں صدی کی عورت، اور بیٹی افسانوں میں، جیتندر بلور نے 'چکر وغیرہ وغیرہ ۔۔یہ سارے کردار مغربی نہیں بلکہ مشرقی کردار ہیں ۔

حمیرا علیم: الحمدللہ مجھے قرآن و حدیث پر لکھی کہانیوں کا اتنا اچھا رسپانس ملا کہ مجھے حیرت ہوئی کیونکہ میں توقع کر رہی تھی کہ لوگ ایسی کہانیاں پسند نہیں کریں گے۔جیسے ڈرامہ اور فلم میں اگر موضوع اچھا ہو تو عوام ضرور پسند کرتی ہے بالکل ویسے ہی جب ہم ایسے ٹاپکس پر لکھیں گے توقارئین کی رائے بھی بن ہی جاتی ہے۔  میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ جب بھی عورت کا کردار لکھوں چاہے وہ گھریلو ہو یا ورکنگ اس کا کردار مضبوط ہو۔مغربی عورت کا کردار ایک دو کہانیوں میں لکھا تو ہے مگر وہ موضوع کا تقاضہ تھا۔ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں عورت کا کردار بڑی ساس، نند اور مظلوم یا ظالم بہو کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔یہ بالکل غلط رویہ ہے۔ یہاں ایسی خواتین بھی ہیں جو ان کرداروں کے برعکس بہت عظیم ہیں۔ اور میں نے اپنی چند کہانیوں میں ایسی خواتین دکھائی ہیں لیکن لوگوں کا کہنا یہی تھا کہ ایسی خواتین آج کل ناپید ہیں۔جبکہ میں نے رئیل لائف کیریکٹرز پر کہانیاں لکھی تھیں۔ گھریلو خواتین کے کردار کو بھی مضبوط دکھایا جا سکتا ہے اگر وہ روایتی ساس نند بہو کے علاوہ خاندان کو جوڑنے والی، بزنس یا ورکنگ وویمن ہو اور گھر کو اسورٹ کر رہی ہو۔اگر آپ عمیرہ، نمرہ اسما قادری اور بشری سعید کی خواتین کریکٹرز کو دیکھیں تو ان کی ہیروینز ہمیشہ بیحد سادہ مگر ہمت و حوصلے والی اور مضبوط کردار کی ہوتی ہیں۔

اطہر کلیم:  جبین صاحبہ !میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔ اور میرا سوال بھی یہی ہے کہ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی مشرقی عورت کو مضبوط کردار میں دکھایا گیا ہو۔۔ بہت کم قلمکاروں کے یہاں ہی سہی مگر ایسا ہوا ضرور ہے جس سے قطعی انکار نہیں۔۔ مگر کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس کا تناسب بڑھنا چاہئے؟

جبین نازاں: بالکل اس کے تناسب میں اضافہ ہونا چاہئے۔ اب جو کہانیاں لکھی جارہی ہیں اس میں ہر طبقے کی خاتون کا کردار پیش کیا جارہاہے۔گھریلو عورت،ملازمت پیشہ خاتون،مذہبی خیالات کی حامل خاتون یا پھر بے راہ رو ، یا آزاد خیال خاتون وغیرہ ! ظاہر سی بات ہے روز ازل سے خطہ ارض کے کسی بھی معاشرے میں مرد ہو یا عورت سب کا کردار مزاج اور خیالات مختلف ہوا کرتے ہیں ۔ تو پھر افسانے اور کہانیوں میں عورت کا ایک کردار کیوں پیش کیا جائے ؟ یہ اہم سوال ہے ۔اگر ایک ہی کردار پیش کیا جاتا رہا ہے تو اس کے پیچھے کون سی ذہنیت کار فرما رہی ؟ اور کیوں رہی ؟ پھر تو افسانہ یا کہانیاں ادب نہ ہوکر تبلیغ کا ایک پلیٹ فارم بن کر رہ جائے گا۔ یا پھر ایک نظریہ کا پروپیگنڈہ ۔۔لیکن چند مرد افسانہ نگار ’’فارمولہ ٹائپ‘‘ لکھنے پر مصر نظر آتے ہیں۔ خاتون کے کردار کو مظلوم ، محکوم ، شکست خوردہ پیش کرنے کے عادی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جہاں عورت مظلوم ہے وہاں مرد حضرات بھی مظلوم مل جائیں گے ۔۔ اب صرف عورت مظلوم نہیں رہی ۔

زیب النساء زیبی: مشرقی عورت کا کردار کہیں مضبوط اور زیادہ تر کمزور ہی ملتا ہے۔ اسے حوصلہ، تعلیم اور کردار کی بلندی کے ساتھ پرعزم بنانے کے لیے خصوصی تربیت کی ضرورت ہے۔۔ عورت نرم دل واقع ہوئی ہے۔ ہمدردی خلوص اس کی سرشت میں شامل ہے جس سے عموما لوگ ناجائز فائد ہ اٹھا لیتے ہیں اسی لیے عورت کے لیے چار دیواری کو ہی محفوظ جگہ سمجھ کر اس کی حفاظت گھر والے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں یوں وہ اعلی تعلیم ملازمت اور دیگر ان سہولتوں سے محروم رہتی ہے ۔۔۔عو رت میں خود اعتمادی کی کمی اسے کمزور بناتی ہے ۔بہت سی خواتین نے اپنی صلاحتوں اور علم و شعور و آگہی کو ثابت بھی کیا ہے۔ آزادی اورپابندی میں ایک توازن ہونا چاہیے۔یوں تو   مشرقی عورت نے اس عہد میں خود کو منوایا ہے، بہت سے کہانیاں اس مو ضوع پر بھی لکھی گئی ہیں میرا ناول " میں ’’آدھی گواہی‘‘ " میں ایک بہت مضبوط باہمت لڑکی کا کردار ہے جو مظلوم کمزور بے بس عورت کو ہر مشکل سے بچانے اس کی مدد کو ہر جگہ پہنچ جاتی ہے۔ یہ سب وہ اپنی ذہانت اور بہادری سےکرتی ہے ایسے کردار عملی زندگی میں بھی ملتے ہیں اور بہت سی تخلیقات میں بھی ۔۔۔

ثریا حیا: بہت عمدہ اور پراثر احساسات کااظہار کیا ہے۔ آزادی اور پابندی میں توازن ہونا ضروری ہے کیونکہ دونوں ہی غیر متوازن ہونے کی صورت میں کردار کی بیخ کنی کرتے ہیں۔

ثریا حیا: آپ کی بات سے متفق ہوں کہ عورت کومضبوط کردار میں پیش کرنا چاہئے۔۔اور کسی حدتک افسانوں،کہانیوں اور ناولوں میں یہ تناسب بڑھ رہا ہےافسانوی ادب میں مشرقی عورت کا جو کردار پیش کیا جارہاہے ،کیا وہ حقیقت سے قریب ہے۔ اس کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔۔ آپ نے جن کرداروں اور مصنفین کے حوالے دیئے وہ قابلِ قدر ہیں مگر کیا ان کو پڑھنے کے بعدآج کے مذموم دور میں عورت اتنی مضبوط ہے۔۔آپ کو کچھ مثالیں ضرور مل جائیں گی مگر عمومی طورپر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج بھی مشرقی عورت کمزور ہے۔۔مذہبی،اخلاقی،معاشرتی اقدار کےحصار میں مقید ہے۔۔میں اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ لکھاری عورت کو مضبوط بنا کر پیش کریں تاکہ وہ خود کو معاشرے کے بے حس رویّوں کامقابلہ کرنے کے قابل بناسکے بے شک آج کی عورت ہر شعبے سے منسلک ہے مگر خودساختہ خدائوں کی نظر میں پھر بھی وہ ایک عورت ہے۔

تبسم حجازی: آپ نے بہت عمدہ سوال کیا ہے ۔اسی موضوع پر میں نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں بھی لکھا ہے ۔ادب ہو یا فلم اور ڈرامہ،ان میںوہی دکھایا جاتا ہے جو معاشرے کا چلن ہو، تاکہ قاری اور ناظرین خود کو اس سے متعلق محسوس کر سکیں اور وہ تخلیق مقبول ہو۔ ہمارے معاشرے میں پچھلی صدی میں جو عورت کا کردار تھا وہی ہماری کہانیوں، ناولوں ، فلموں اور ڈراموں میں نظر آتا رہا ہے اور معاشرتی کہانیاں پڑھنے والا طبقہ جن کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے وہ ان مظلوم کرداروں میں اپنا عکس دیکھتا ہے۔۔ایسا نہیں ہے کہ مضبوط نسوانی کردار نہیں لکھے گئے ۔چند مثالیں جبین صاحبہ نے دیں ہیں اور اس کے علاؤہ اور بھی ہیں لیکن یہ مستثنیات ہیں۔عمومی طور پر منٹو سے لے کر بشری رحمن تک نے عورت کا کردار مظلوم ہی دکھایا ہے ۔ گھریلو سیاست کی چکی میں پستی ہوئی ، کہیں مرد کے ہاتھوں بے وقوف بنتی اور کہیں بازاروں میں بکتی ہوئی مظلوم عورت ۔ اہم یا مضبوط کردار میں مغربی عورت کو دکھانے کی وجہ بھی ظاہر ہے، وہاں کے معاشرے میں عورت کا کردار کافی الگ رہا ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام کے باعث عورت برسوں سے معاشی ذمہ داریاں اٹھانے میں مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔مختلف شعبوں میں اس کی نمائندگی نمایاں ہے۔

پچھلی صدی کی آخری دہائیوں سے ہمارے معاشرے میں بھی یہ تبدیلی نظر آنے لگی ہے ۔عورتیں زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کررہی ہیں۔اس کا اثر ادب پر نظر آتا ہے اور خواتین کردار کچھ بہتر ہوئے ہیں۔ گھریلو سیاست کے علاؤہ بھی معاشرے میں عورت کا ایک اہم رول دکھایا جانے لگا ہے ۔ وہ صرف ایک مظلوم بہو اور ظالم ساس ہی نہیں ہے بلکہ ایک مضبوط بیٹی بھی نظر آتی ہے جو بیٹے کی جگہ والدین کا سہارا بن سکتی ہے ۔ایک استاد بھی جو طالب علموں کی عمدہ راہنمائی کرتی ہے ۔ ایک بزنس وومین بھی جو اپنے گھر کی چار دیواری میں رہتے ہوئے معاشی ذمہ داری میں اپنا حصہ ڈالتی ہے اور ایک مضبوط ہاؤس وائف بھی جو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر آواز اٹھاتی ہے۔ اردو ادب میں اس کا تناسب ابھی کچھ کم ہے لیکن پھر بھی امید افزا ہے ۔۔ میں فکشن نہیں لکھتی لیکن میرے مضامین میں یہ چیز نظر آئے گی۔ قومی زبان کراچی میں شائع ہوا۔ "ابن صفی کے نسوانی کردار" اور اقرا کے ’’خواتین نمبر ‘‘ کے لئے لکھاگیا میرا مضمون ’’"ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے"ساقی‘‘ اس کی چند مثالیں ہیں ۔

حمیرا علیم: مذہبی عنصر سے مراد یہ نہیں کہ سیدھا سیدھا قرآن و حدیث ہی بیان کر دیا جائے ۔میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو غیر شرعی اور ہندوانہ رسوم و رواج ہمارے ہاں رائج ہو چکے ہیں ان کو اسلامی نقطہ نظر سے بیان کیا جائے۔ویسے مجھے بعض گروپس میں اپنے بہن بھائیوں کے کمنٹس پڑھ کر حیرت ہوتی ہے جو ’’جوائے لینڈ‘‘ جیسی موویز اور ’’گے موومنٹ‘‘ کے حق میں بولتے ہیں اور جو کبھی کسی اسلامی ٹاپک پر پڑھتے ہیں تو ایسے اس کی مخالفت کرتے ہیں جیسے خدانخواستہ مسلمان نہ ہوں۔یہ غلط نظریہ ہے کہ تفریح یا ادب کو انٹرٹیننگ ہونا چاہیے نہ کہ اسلامی۔اسلام زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتا ہے تو ہم کیوں نہ اسے ہر چیز،میں یاد رکھیں۔

اطہر کلیم:      آپ سب کی مدلل گفتگو اور مہذب بحث کو دیکھ کر کچھ دیر کو یوں لگا کہ اسی موضوع پر مزید گفتگو کرتے ہوئے نشست کو آگے بڑھاؤں مگر چونکہ وقت کم اور موضوعات بہت سے ہیں اسلئے مجبوراً مجھے اس بحث کو یہیں روک کر دیگر موضوعات کی طرف بڑھنا پڑ رہا ہے.. زیب النساء صاحبہ چونکہ افسانے وغیرہ بھی لکھتی ہیں اور صاحبِ کتاب بھی ہیں اسلئے اگلے موضوع کا آغاز میں انھیں سے کرنا چاہوں گا.. مجھے یہ بتائیے کہ اختراعات کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟افسانہ پہلے مختصر ہوکر افسانچہ بنا، اور اب علامتی افسانہ، مائکرو فکشن، نانو فکشن وغیرہ وغیرہ.. اور پھر ان میں بھی مختلف کیٹیگریز ہوگئیں.. اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟ آیا ایسا ہونا چاہئے یا افسانے کو افسانہ ہی رہنے دیا جانا چاہئے؟؟اسی طرح نظم کی ہییت میں بھی تبدیلی کی گئی اور نئے نئے نام ہمارے سامنے آرہے ہیں.. جیسے پرونیٹ، سانیٹ، نثری نظم وغیرہ.. ثریا حیا صاحبہ سے میں اس ٹاپک پر تفصیلی گفتگو کرنا چاہوں گا.. کیا آزاد نظمیں اور خاص کر نثری نظمیں قابل قبول ہیں؟ یا شاعری اپنے مخصوص اصولوں کے ساتھ ایک خاص پیرا میٹر (بحور کی قید) میں ہی ہونی چاہئے؟

ثریا حیا:     اردو میں نظم نگاری ایک اہم صنفِ شاعری ہے۔۔ موضوعات اور ہیئت کے اعتبارسے اس ک مختلف اقسام سامنے آئیں جن میں ہر دورمیں تبدیلیاں آتی رہیں۔نظم روایت سے جدیدیت کی طرف بڑھتی رہی اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ روایت کی جگہ جدیدیت نے لے لی۔روایت برقرار رہی اور نظم میں جدید رجحانات پیدا ہوتے رہے۔۔مغربی شاعری کے موضوعات اور ہیئت کو اپنانے کے باوجود نظم کا رشتہ روایت سے اب بھی گہرا تعلق ہے۔۔۔اگر ہیئت کے اعتبار سے دیکھیں تو نظم بنیادی طور پر دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔۔پابند نظم اور نظمِ معریٰ۔۔پابند نظم میں ردیف،قافیہ،بحر،وزن سب لوازماتِ شاعری موجود ہوتے ہیں۔ جبکہ ظمِ معرّیٰ کہیں تمام اور کہیں جزوی پابندیوں سے آزاد ہوتی ہے۔۔ نظم معرّیٰ کی ابتدا فرانس سے ہوئی اسی طرح آزاد نظم بھی مغرب کی پیداوار ہے۔اردو میں پہلی نظم معرّیٰ اسماعیل میرٹھی نے لکھی چڑیا کابچہ کےعنوان سے۔۔اس کے بعد۔تصدق حسین خالد۔۔ن م راشد۔سے لے کر آج تک نظم جدیدیت کی طرف رواں دواں ہے۔۔پرونیٹ۔سانیٹ۔۔آزاد نظم۔۔نظمِ معریٰ سب جدید نظموں کی اقسام ہیں۔۔نوجوان نسل نے مغرب کے اثرات سے متاثر ہوکر ان پر طبع آزمائی کی۔۔ان میں سے آزاد نظم سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔۔ن م راشد نے اسے نئے نئے رنگ عطا کئے۔۔۔سانیٹ 14 مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔۔دو بند stenza ہوتے ہیں پہلے میں آٹھ مصرعے ہوتے ہیں دوسرے میں چھ مصرعے ہوتے ہیں اس کےمصرعایک بحر میں ہوتے ہیں مگر ردیف اور قافیے کی قید نہیں ہوتی۔آزاد نظم کے بعد اسےمقبولیت حاصل ہوئی آزاد نظم کے بعد نثری نظم کا ظہور ہوا یہ نظم بحر، ردیف، قافیہ، عروض سب سے عاری ہوتی ہے۔۔جہاں تک نثری نظم اور آزاد نظم کا تعلق ہے تو نثری نظم اپنی ہیئت کے اعتبار زیادہ مقبول نہیں ہو سکی حالانکہ اس میں بھی غنائیت موجود ہوتی ہے مگر کچھ لوگ اس کو شاعری ہی نہیں مانتے آزاد نظم بہت مقبول  ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ بحر اور وزن سے لیس ہوتی ہے۔۔ایک بحر کے ارکان کو کم یا زیادہ کر دیا جاتا ہے مصرعے چھوٹے بڑے ہو جاتے ہیں۔مگر ردھم اور بحر موجود ہوتی ہے۔۔۔اس لحاظ سے میں یہ کہنا چاہوں گی کہ روایت اور جدیدیت ہم قدم رہیں تو اردو ادب میں نظم نگاری کا وقار ہمیشہ برقرار رہے گا۔۔میں جدید کی نفی نہیں کرتی مگرروایتی حسنِ شاعری کو ساتھ رکھنے کی قائل ہوں۔۔آج بھی میر۔سودا۔نظیر اور اکبر الہٰ آبادی کی نظم نگاری کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔۔جوش کی۔۔ نظم نگاری اور فیض حبیب جالب کی نظمیں آج بھی احساسِ لطیف پیدا کرتی ہیں۔۔

زیب النساء زیبی: ادب میں تجربات ہوتے رہتے ہیں  افسانہ اپنی ہیت میں مکمل ادبی صنف ہے مختلف اختراعات اپنی جگہ ہیں اس سے افسانے میں مزید وسعت ہوئی ہے اب یہ لکھنے والے پر منحصر ہے وہ اپنی بات کس پیراے میں زیادہ بہتر انداز میں قاری تک پہونچنا چاہتا ہے اور یہ قاری کے طبع ِ ذوق پہ بھی منحصر ہے وہ کس صنف میں کہانی کے میسج کے تاثر کو قبول کرتا ہے ۔ ۔۔افسانہ ماضی میں بھی اپنی تمام تر بنیادی اصولوں  کے ساتھ اہم تھا اور آئندہ بھی رہے گا۔

اطہر کلیم:   ماشاءاللہ بہت خوب.. اس پر ان شاءاللہ میں ایک الگ سیشن آپ سے ضرور کروں گا.. بنیادی طور پر مجھے بھی اصناف سخن سے بہت دلچسپی ہے.. اور یہ موضوع بحث طلب بھی ہے..

اطہر کلیم:          حمیرا صاحبہ، تبسم صاحبہ اور جبین نازاں صاحبہ آپ تینوں ہی نثری اصناف پر طبع آزمائی کرتی ہیں، ابھی ایک نیا پیٹرن چل نکلا ہے سو لفظی، پچاس لفظی، دو سو لفظی کہانیوں کا.. (اسی طرح بعض ایونٹس میں مضامین پر بھی ہزار اور پندرہ سو الفاظ کی قید لگادی جاتی ہے..)  اسے آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ایک قلمکار، جو پہلے ہی مختلف اصناف کے اجزائے ترکیبی کی بندشوں میں گھرا ہوا ہے اسے الفاظ کی تعداد کا پابند کرنا کہاں تک درست ہے؟

حمیرا علیم:میں ہمیشہ اس کے خلاف بولتی رہی ہوں کہ کسی کو الفاظ کا پابند کر کے تحریر کی خوبصورتی متاثر ہوتی ہے۔خصوصا 100 یا 300 لفظی مضمون لکھنا بیحد مشکل کام ہے مگر میرے رہنما حضرات کا کہنا ہے کہ ایک رائٹر کا یہی تو کمال ہے کہ وہ مختصر الفاظ میں بھی اپنا پیغام پہنچا سکے۔تاہم میرے خیال میں یہ رائٹر پر منحصر ہے کہ وہ ایسے ایونٹس میں حصہ لینا چاہتا ہے یا نہیں۔جہاں تک بات ہے سانیٹ، پرونیٹ اور نثری نظم کی تو بحیثیت انگلش لٹریچر کے طالبعلم کے میں یہ بتانا چاہوں گی کہ انگلش میں تو یہ تمام اصناف صدیوں سے موجود ہیں شاید اردو شعراء نے انہیں اب اپنایا ہے۔شاعری میں اضافہ قابل قبول ہے یا نہیں یہ توشعراء ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔میری ناقص رائے کے مطابق کوئی بھی انسان اپنے خیالات کا اظہار جس بھی صنف میں کرنا چاہے اس کو آزادی حاصل ہے۔لیکن میں نہ تو کوئی تجربہ کار ادیب ہوں نہ ہی شاعر لہذا حتمی رائے تو بڑے بڑے ادیبوں اور شعراء ہی کی مستند مانی جائے گی۔

جبین نازاں: وقت کے ساتھ تبدیلیاں ناگزیر عمل ہے ۔ لہذا  زبان وادب میں  بھی ہر زمانے میں تبدیلیاں ہوتی رہی اور ہوتی رہیں گی۔ داستان گوئی سے مائیکرو فکشن تک کا سفر اپنے آپ میں نہایت دلچسپ رہا ہے۔ دیکھنے والی یہ بات یہ ہے کہ قاری کسے ردوقبول کرتے ہیں ۔؟ تیزرفتار سہل پسند عہد میں وقت کی قلَت اہم مسئلہ ہے۔ جہاں تین گھنٹے کی فلم کی جگہ تین منٹ ٹک ٹاک نے لے لی ہے۔ (پھر بھی 2ڈھائی گھنٹے کی فلمیں بن رہی ہیں) ٹسٹ کرکٹ ٹی 20میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ ویسے ہی طویل افسانے مائیکرو فکشن میں تبدیل ہوچکا ہے۔ لیکن اس سے ناول لکھنے پڑھنے میں کمی نہیں آئی۔ ہم ہر امر میں تقلید یورپین ممالک سے کرنا چاہتے ہیں - ان کی مثال دیا کرتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں بھی یہی صورت حال ہے ؟ سارے مسائل برصغیر کے زباں وادب کو درپیش کیوں ہیں ؟ وقت کی قلت کا مسئلہ وہاں نہیں ؟؟ اگر ہے تو پھر ہمارے یہاں سے زیادہ ناول (ہرطبقے کے معیارکے) وہاں لکھے اور پڑھے جارہے ہیں ۔ انسان فطرتاً یکسانیت بیزار واقع ہوا ہے - لہذا تبدیلی کے نام پہ نئے رجحان کی طرف جلد راغب ہوجاتا ہے - نئے رجحان نئی تبدیلی کو بھی ایک روز  قدیم ہونا ہے ۔۔جسے فیشن کہا جاتا ہے۔ فیشن کی سب سے اہم اور بڑی خوبی یا خامی کہہ لیں ! مستقل قائم ودائم نہیں رہتا، فیشن بدلتا رہتا ہے۔ اور بدلنا بھی چاہئے "جمود موتشمع عارض کا میں پروانہ بنوں یا نہ بنوں آپ ہی کہئے کہ دیوانہ بنوں یا نہ بنوں مقصود جعفری ہے " تبدیلی حیات نو۔۔

تبسم حجازی: الفاظ کی پاپندی میرے خیال سے تو آج کا تقاضہ ہے۔ آج کی زندگی بہت تیز رفتار ہوگئی ہے لوگ ہر چیز کوئیک اور انسٹنٹ چاہتے ہیں۔۔خاص کر نوجوان نسل۔ ایک چھوٹی سی مثال دیکھ لیں کہ پہلے لوگ ڈھائی تین گھنٹہ کی فلم دیکھتے تھے پھر یو ٹیوب ویڈیوز آئیں پھر اسنیپ چیٹ اور انسٹا گرام کلپس پھر  تین منٹ کا ٹک ٹاک آگیا۔ اسی طرح رسائل اخبارات کی جگہ فیس بک پوسٹ اور ٹوئٹس لیتی جا رہی ہیں۔ 

آج کا زمانہ داستاں گوئی کا نہیں ٹوئٹ کا ہے۔ ایک چند لفظی ٹوئٹ لاکھوں ذہنوں پر اثر ڈال دیتی ہے تو کیا ایک اچھا رائٹر چند سو یا ہزار الفاظ میں اپنا مدعا بیان نہیں کرسکتا ؟ہاں کچھ موضوعات تفصیل کے متقاضی ہوتے ہیں اور ان پر لکھا بھی جانا چاہیے۔ تحقیقاتی مضامین ، ناول وغیرہ اب بھی لکھے جارہے ہیں لیکن ہیروئن کی خوبصورتی یا شام کی دلکشی پر صفحات لکھنے کا دور نہیں رہا ۔ مجموعی طور پر یہ دور کم از کم الفاظ میں اپنی بات قاری تک پہنچانے کا ہے۔

اطہر کلیم:      میں یہاں ایک اختلافی نکتہ بیان کروں گا.. اور اسی پوائنٹ سے میرا اگلا سوال بھی ہے آپ کے لئے..آپ نے تین منٹ کے ٹک ٹاک کی بات کی.. بات تو پندرہ سیکنڈ کی ریلس اور ویب اسٹوریس تک پہنچ گئی مگر فلموں کی حیثیت اب بھی اپنی جگہ مقدم ہے.. بلکہ ایک مشاہدے کے مطابق لوگ اور خاص کر نوجوان نسل فلموں سے زیادہ پانچ چھ گھنٹے کی ویب سیریز کو فوقیت دے رہے ہیں.. کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اردو کے طویل افسانوں، ناولوں اور داستانوں میں کنٹینٹ ویسا نہیں رہا جو قاری کو وقت سرف کرنے پر مجبور کرے؟

تبسم حجازی:ویب سیریز کی مثال اچھی دی۔ میں اس کا بھی ذکر کرنا چاہ رہی تھی ۔ستر، اسّی کی دہائی میں ڈرامے ہفتہ میں ایک قسط کے حساب سے دیکھے جاتے تھے اور مہینوں سالوں چلتے تھے نوے کی دہائی میں ہفتہ سے ڈیلی سوپ پر آگئے اب آج کل انھیں ویب سیریز کے نام سے چند گھنٹوں میں دیکھا جاتا یے۔ یعنی یہاں بھی وہی تیز رفتاری آگئی ہے کہ جو کانٹنٹ مہینوں میں دکھایا جانا تھا وہ گھنٹوں میں ایک ساتھ دیکھ لیا جاتا ہے ۔

رہا سوال اردو کانٹنٹ کا تو ہاں اردو میں موضوعات کا تنوع کم نظر آتا ہے ۔جدید دنیا سے متلعق مسائل پر قلم اٹھانے والے کم ہیں۔لیکن کچھ تبدیلی آئی ہے۔ لوگ اچھا لکھ رہے ہیں۔ کانٹنٹ سے قطع نظر میری دانست میں تو افسانچہ یا سو لفظی کہانیوں کو منفی انداز میں نہ دیکھ کر یہ سمجھیں کہ یہ اردو کو جدید ماحول سے ہم آہنگ کرنے اور نوجوانوں تک پہچانے کا ایک ذریعہ ہیں۔ اسی طرح جیسے ڈیجیٹل بکس کتاب کا خاتمہ نہیں ہے اسے نئے انداز میں پیش کرنے کا ذریعہ ہے جسے آپ نے بھی اڈاپٹ کیا ۔

اطہر کلیم:      ڈیجیٹل رسائل پر تو میں بعد میں آؤں گا.. آپ نے بڑی اچھی بات کہی کہ سو لفظی کہانیوں یا افسانچوں کو منفی انداز میں نہ دیکھ کر جدید ماحول سے ہم آہنگ کرنے کا ایک ذریعہ سمجھنا چاہئے... یہاں میرا پوائنٹ بس اتنا ہی ہے کہ الفاظ کی تعداد کی قید لگانا کتنا درست ہے؟کیا کہانیاں سو کی بجائے پچانوے یا ایک سو دس الفاظ کی نہیں ہوسکتی؟؟

جبین نازاں: کسی بھی لکھنے والے پر کسی طرح کی قید میں مناسب نہیں سمجھتی ۔۔خواہ کوئی الفاظ کی قید لگائے، یہ نظریہ ۔۔یا موضوعات کی۔۔لکھنے والے کو مکمل آزادی ملنی چاہئے ۔۔خواہ وہ پچاس لفظوں میں لکھے یا پچاس ہزار لفظوں میں ۔۔یہ لکھنے والی کی اپنی خواہش اور اپنا منشا ہونا چاہئے - یہی وجہ ہے میں سولفظوں کی کہانی نہیں لکھ سکی۔۔

اطہر کلیم:      اس موضوع پر بھی ایک طویل بحث ہوسکتی ہے مگر کیا کریں کہ ہم وقت اور طوالت کی بندشوں میں جکڑے ہوئے ہیں.. مجھے لگ رہا ہے کہ یہ ہر موضوع ایک علیحدہ سیشن کا متقاضی ہے... اب میں جدید ٹیکنالوجی اور ادب اطفال سے متعلق کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں.. آپ تمام سے یہ کامن سوال ہے.. مجھے یہ بتائیے کہ موجودہ دور میں ادب اطفال کی صورتِ حال آپ کو کیسی نظر آتی ہے؟ آپ خود اپنے گھر کے بچوں کو نئے دور کا ادب پڑھنے کو دے رہے یا آج بھی اسماعیل میرٹھی، علامہ اقبال جیسے شعراء و ادباء کا تخلیق کردہ ادب ہی بچوں کے لئے مناسب سمجھتے ہیں..؟؟ اسی کے ساتھ مجھے یہ بھی بتائیے کہ آپ بچوں کو کتابوں کا عادی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں یا یوٹیوب و دیگر ایپس کے ذریعے ان تک نظمیں اور کہانیاں پہنچانا آپ کے زیادہ بہتر لگتا ہے؟؟

حمیرا علیم: میرے بچوں کے پاس تو اسکول۔سے آ کر سوائے ہوم ورک کرنے کے کوئی کام ہی نہیں ہوتا شام 3 بجے آ کر رات دس بجے تک ہوم ورک پھر سو جاتے ہیں۔البتہ میں تفہیم کے لیے مختلف میگزینز استعمال کرتی ہوں۔چھوٹا بیٹا کتب بینی کا شوقین ہے مگر وقت ہی نہیں ہوتا کہ کچھ پڑھ پائے بڑے کی کلاس بڑی ہے تو کام بھی زیادہ ہے۔جب میں نے لکھنا شروع کیا تو بچوں کے لیے لکھنے والوں کو بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ماشاءاللہ نہایت اچھا اور وقت کے تقاضوں کے مطابق لکھ رہے ہیں۔آج کل کے بچے ہم لوگوں کی طرح جنوں پریوں میں دلچسپی نہیں رکھتے۔پوری دنیا ایک کلک پر ان کے سامنے ہوتی ہے۔تو لکھنے والے بھی سائنسی کہانیاں اور اخلاقی کہانیاں لکھنے رہے ہیں۔بچے چونکہ سوشل میڈیا زیادہ استعمال کرتے ہیں تو اگر یوٹیوب اور دیگر ایپس پر اینیمیٹڈ کہانیاں ہوں تو بچے ضرور دیکھتے ہیں۔میرے خیال میں ہر بچے کی دلچسپیاں اور مشاغل مختلف ہوتی ہیں ہر بچہ پڑھنے کا شوقین نہیں ہوتا۔

زیب النساء زیبی:کتب بینی کا شوق مشرق میں بہت کم ہے خواتین ڈائجسٹ  شوق سے پڑھتی ہیں اس کی جگہ بھی اب یو ٹیوب فیس بک سوشل میڈیا نے لے لی ہے بچے کمپوٹرسیل پہ مصروف رہتے ہیں  اسکول کے تعلیمی نظام نے بچوں کو کتا ب سے رٹنے تک محدو د کر کے ادب اطفال سے بالکل دور کر دیا ہے بھاری بستے ٹیوشن پارہ پھر سیل۔۔ جبکہ مرے نواسے نواسی جو کینیڈا میں ہیں روزانہ بکس پڑھتے ہیں یہاں لائبریریوں کا فقدان ہے وہاں ہر ہفتہ بچہ 15 کتب  پڑھنے کو لیتا ہے پھر اسکول کی لائبریری  اور پاکٹ منی سے ہر ماہ ٹیچر کی بتائ ہوئ دو تین کتب الگ پڑھتا ہے ۔۔ اطفال ادب لکھنے والوں کو بھی پزئرائ نہیں ملتی  میری دو شاعری کی کتب بچوں کے لیے شاعری پہ آ چکی ہیں لیکن بس میری اپنی تسلی کو ۔۔۔اب بچے کچھ تلاش کرنا ہو تو گو گل ہی دیکھتے ہیں۔

ثریا حیا:جی یہ المیہ ہے کہ اوّل تو بچوں کے لیئے لکھنے والوں کو ادیب کا درجہ نہیں ملتا۔۔دوسرے ان کو ایوارڈز سے بھی کم نوازا جاتا ہے۔۔بچے بھی قوم کی آبادی کا حصہ ہوتے ہیں۔حکومتی سطح پر ن کے لیئے کوئی وزارت ہونی چاہئے اور ان سے متعلق مختلف امور پر قانون سازی ہونی چاہئے۔ کسی قوم کے روشن مستقبل کا انحصار بچوں کی درست تعلیم و تربیت پر ہوتا ہے۔۔بچوں کی ذہنی نشو و نما میں مناسب تربیت اور درست راستے کی نشاندہی میں ادب بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔اور وہ ادب جو بچوں کے لیئے ہو ادبِ اطفال کہلاتا ہے۔ ۔بچوں کی کب کہاں کیوں اور کیسے کےجوابات اسی ادب سے مل سکتے ہیںموجودہ دور میں ادبِ اطفال کی کمی نہیں مگر جدید آلاتِ ٹیکنالوجی کے استعمال نے آج کے بچے کو کتاب سے دور کر دیا ہے۔جس کی وجہ سے ادب اطفال اتنا کارگرنہیں ہے جتنی اس کی ضرورت ہے۔ہم اپنے بچوں کو قیمتی موبائل صرف اس لیئےدے دیتے ہیں کہ کتاب پڑھنے کی صورت میں ان کے ذہن میں اثھنے والے سوالات کے جوابات دینےکا ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔۔جبکہ موبائل پر گوگل ان کی آسانی سے رہنمائی کر دیتا ہے۔۔اس لیئے ہمارے بچے صرف اتنا ہی پڑھتے ہیں جو ان کی درسی کتب میں ہوتا ہے۔اس میں بھی وہ نظمیں اور اسباق تو پڑھ لیتے ہیں مگر ادیبوں اور شاعروں کے نام یاد نہیں رکھتے۔۔زمانے کی تیز رفتاری نے بچوں کی ذہنی اپچ کو بھی بدل دیا ہے۔وہ سائینس، فکشن، کومکس اور مغربی کرداروں کا دل دادہ ہے۔۔اسے چچا چکن۔خلیل خاں۔حاتم طائی یا ٹوٹ بٹوٹ کے کرداروں سے کوئی رغبت نہیں۔ اس کے لیئے بچوں پر والدین کی توجہ کی ضرورت ہے۔۔بچوں کے روزمرّہ معمولات میں کم از کم ایک گھنٹہ مطالعے کے لیئے جبراً مختص کریں اور خود بھی اپنے معمولات پر نظر ثانی کریں جو وقت بچوں کے مطالعے کے لیئے وقف کیا ہے اس وقت خود بھی ان کے ساتھ بیٹھیں۔۔ان کےلیئے کتابیں منتخب کرنے کا کام کریں۔۔میں یہ نہیں کہتی کہ بچوں کو جدید تقاضوں سے دور رکھا جائے۔۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ کتاب سے شناسائی بھی ہونی چاہئےہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ادبِ اطفال کی کمی ہے تاریخی اعتبار سے نظر ڈالیں تو امیر خسرو،نظیر اکبر آبادی، انشا اللہ خاں انشا، ڈپٹی نذیر احمد،اسماعیل میرٹھی،سرورجہاں آبادی، چکبست،غلام مصطفیٰ تبسم،حفیظ ہوشیار پوری،عظیم بیگ چغتائی نے بچوں کے لیئے بہت کچھ لکھا ہے۔۔لیکن اگر میعار ک بات کریں تو وہاں کمی نظر آتی ہے۔ سائینس، ٹیکنالوجی اورماحولیات پرکم لکھا گیا ہے۔جبکہ اب انسانیت کامستقبل سائینس سے وابستہ ہے۔۔ادیبوں اور شاعروں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے پہلے بچوں کے رسائل بطورِ خاص شائع ہوتے تھے جن سے ان کی ذہنی تربیت ہوتی تھی ان میں کہانیاں، مضامین، نظمیں،معلوماتِ عامہ،معمے اور بہت سا تفریحی مواد ہوتا تھا۔۔ پھول، تعلیم وتربیت، بچوں کی دنیا۔ٹوٹ بٹوٹ گلدستہ۔کھلونا اور غنچہ کے نام لیئے جاسکتے ہیں۔مگر اب وہ سلسلے بھی کم کم نظر آتے ہیں دورِ حاضر میں بچوں کو کتب بینی کی طرف مائل کرنا جوئے شیرلانے کے برابر ہے۔۔اگر وہ جدید ٹیکنالوجیز اور ان کے استعمال کی طرف مائل ہیں تو یقیناًہمیں کوئی ایسا راستہ ڈھونڈنا پڑے گا جو ان سے زیادہ چارمنگ ہو۔اس سلسلے میں نیٹ ورک ڈیولپرز اور ویب سائیٹس میکرز بھی کچھ قوانین بنا سکتے ہیں۔۔حکومتی سطح پر بھی کوشش کی جاسکتی ہے۔۔تعلیمی ادارے، اساتذہ اور والدین مل اس کام کو آسان بنا سکتے ہیں۔۔ اسکول میں ہفتہ وار وقت مختص کیا جا سکتا ہے کہ نصاب سے ہٹ کر ان کے گھروں میں مطالعے کی جانچ کی جائے۔ان سے پوچھا جائے کہ گھر میں انہوں نے کون سی کتاب پڑھی۔۔یوں کتب بینی کو فروغ مل سکتا ہے۔

حمیرا علیم:بک ریڈنگ کمپیٹیشنز تو میرے بچوں کے اسکول میں بھی ہوتے ہیں اور وہ حصہ بھی لیتے ہیں۔مگر اسکول کا ہر مضمون کانسیپچول اور ریسرچ ورک پر مبنی ہوتا ہے تو وقت ہی نہیں بچتا کہ وہ کچھ غیر نصابی بھی پڑھ پائیں۔مغرب میں تو پہلے پانچ سال بس پڑھائی ہی ہوتی ہے لکھنے کا کام تو بہت کم اور کمپیوٹر پر ای میل کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے تعلیمی نظام صدیوں پرانا ہی چل رہا ہے۔مجھے بچپن میں اپنے والد کودیکھ کر کتب پڑھنے کی عادت ہوئی تھی اور اب تو بغیر کچھ پڑھے کھانا بھی ہضم نہیں ہوتا۔میں نے ڈھیروں کے حساب سے اپنے بچوں کے لیے کتب خریدیں لیکن ان کے پاس وقت ہی نہیں کہ انہیں پڑھ سکیں۔

ثریا حیا:ہمارے معاشرے میں کتب بینی سے دوری مغرب کی بجا تقلیدکی وجہ سے ہی پیدا ہوئی ہے۔۔اور ایسا نہیں ہے کہ مغرب میں کتاب کا تصور نہیں ہے۔میری بیٹی کینیڈا میں رہتی اس کے گھر میں بچوں کی چھوٹی سی لائبریری ہے۔بک ریڈنگ باقاعدہ نصاب میں شامل ہے۔کتابیں مختص ہیں جن کے پڑھنے پر باقاعدہ نمبر ہوتے ہیں۔

ثریا حیا:بالکل درست فرمایا آپ نے ہماری بہت سی اچھی باتیں اور عادتیں مغرب نے اپنا لی ہیں۔۔میری بیٹی بھی کینیڈا میں ہے اور اس ک بچے باقاعدگی سے کتابیں پڑھتے ہیں۔۔دراصل وہاں جدید ٹیکنالوجی ایک نارمل بات ہے۔۔جبکہ ہم نے اسے اور اس کے استعمال کو عنقا بنا کر بہت بڑا درجہ دے دیا ہے۔

تبسم حجازی:ثریا صاحبہ نے بہت عمدہ باتیں کہیں ہیں۔ان ہی کی بات کو آگے بڑھاؤں گی کتب بینی اور غیر نصابی کتابیں پڑھنا بچوں کی ذہنی تربیت کے لئے اور ان کے شعور کو جلا بخشنے کے لئے بہت اہم ہے۔  جب بچے اپنے نصاب سے ہٹ کر کچھ پڑھتے ہیں تو ان کا چیزوں کو دیکھنے کا نظریہ بدلتا ہے ان کے ذہن میں سوال اٹھتے ہیں وہ سوچتے ہیں ۔۔ بچوں میں یہ شوق پیدا کرنے کی ذمہ داری والدین اور تعلیمی نظام دونوں پر آتی ہے ۔۔ یہاں کے تعلیمی نظام میں کتب بینی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے ۔۔ہر علاقہ کی لائبریری میں بچوں کا مخصوص سیکشن ہوتا ہے ۔۔جہاں بچوں کے لئے ریڈنگ سیشن بھی ہوتے ہیں ۔ پزل اور مختلف ذہنی گیمز بھی تاکہ بچے لائیبریری آنے کی عادت ڈالیں ۔اسکولوں میں پرائمری کلاسز سے بچوں کو غیر نصابی کتابیں پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے  یہ ان کے ہوم ورک کا حصہ ہوتا ہے کہ اپنی پسند کی کتاب پڑھیں اور اس پر چند سطریں لکھیں ۔۔

ہمارے یہاں کے موجودہ تعلیمی نظام اور معاشرے میں یہ چیز ختم ہوتی جارہی ہے ۔۔اکثر پڑھے لکھے والدین بھی بچوں کا نصاب سے کچھ ہٹ کر پڑھنا وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔۔۔ ہمارے دور میں اسکول میں لائبریری کا پیریڈ ہوا کرتا جس میں طالب علم اپنی مرضی کی کوئی بھی تفریحی کتاب پڑھ سکتے تھے ۔محلوں میں لائبریریاں ہوا کرتی تھیں جہاں بچوں کی کتابیں سستی قیمت پر دستیاب ہوتی تھی ۔۔بچوں کے مخصوص رسائل گھر آیا کرتے تھے۔  موجودہ اردو اطفال کے حوالے سے میری معلومات محدود ہے جن چند ادبی گروپس میں موجود ہوں انھیں دیکھ کر یہی لگا کہ پاکستان میں ادب اطفال میں کام تو ہو رہا ہے کتابیں اور رسالہ بھی چھپ رہے ہیں لیکن مسئلہ ادبِ اطفال کا نہیں اردو کا ہے۔  انڈیا میں اردو مدارس ختم ہونے کی وجہ سیاسی ہے اور وہاں کے بچے انگریزی اسکولوں میں پڑھنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ پاکستان میں اردو سرکاری زبان ہوتے ہوئے بھی اردو اسکولوں کی حالت دگر گوں ہے۔ اردو پڑھنے والے بچوں کا طبقہ محدود رہ گیا ہے۔ ۔اور یہ وہ طبقہ ہے جو اردو کی مہنگی کتابیں افورڈ ہی نہیں کرسکتا۔۔ 

انڈیا میں اردو کتابوں کی دستیابی ہی مشکل ہے بچوں کے کہانیاں جو چھپتی بھی ہیں وہ قطعی غیر معیاری ہوتی ہیں اور آج کے دور کے بچوں کے لئے بلکل نامناسب ۔۔ ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں بچوں کو کتابوں سے رغبت دلانے کے لئے بہت کچھ کیا جارہا ہے کئی Learning Games بنائے جارہے ہیں۔آڈیو بکس آ رہی تاکہ بچوں میں کتابوں کا ذوق پیدا ہو ۔یہ کام اردو ادبِ اطفال تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔ ویسے مجھے بچوں کے سیکھنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر کوئی مسئلہ نہیں ہے میرے بچے یوٹیوب اور مختلف ایپ سے کافی کچھ سیکھتے ہیں لیکن کتب بینی کی اپنی اہمیت ہے چاہے آپ پرنٹڈ کتاب پڑھیں یا ای بکس یا آڈیو بک ، کتاب کی اپنی اہمیت ہے۔ ذاتی طور پر میں نے اپنے بچوں کو کتابیں پڑھنے کی ترغیب دی ہے ۔بیٹی کو دو سال کی عمر سے کہانی پڑھ کر سلاتی تھی اور اس چیز نے اسے کتابیں پڑھنے اور پھر لکھنے کا بھی شوقین بنایا ۔۔اس کی اپنی ایک چھوٹی سی ذاتی لائیبریری ہے۔بیٹا فکشن کی بہ نسبت تاریخ اور جغرافیہ میں دلچسپی زیادہ رکھتا ہے اور کتابیں بیٹی کی بہ نسبت کم پڑھتا ہے ۔ ہم لوگ اپنی اکثر کوتاہیاں جدید ٹیکنالوجی کے سر ڈال کر خود کو بری الزمہ سمجھ لیتے ہیں۔ دنیا میں تبدیلیاں آتی رہیں گی تاہم ضرورت یہ ہے کہ ہم انہیں درست طریقہ سے اپنائیں ناکہ ان کو خود پر حاوی ہونے دیں۔

جبین نازاں: بزم کی تمام شرکاء نے مدلل اور مفصل گفتگو کی ماشاء اللہ!اس موضوع پہ میں اپنی چند باتیں کہنا چاہوں گی۔50 سال قبل کی اردو زباں کی صورت حال آج سے کہیں بہتر تھی (خیال رہے میں یہ بات ہندستانی تناظر میں کررہی ہوں )  فلمی اداکارہ شبانہ اعظمی سے ایک بار نامہ نگار نے دریافت کیا کہ" آپ اپنے والد ، خسر، شوہر کی شاعری انگریزی زباں میں پڑھتی ہیں ۔۔اردو میں زباں میں کیوں نہیں ؟ "انھوں نے تاریخی جملہ کہا: یہ سوال مجھ سے نہیں ، میرے والدین سے کرنا چاہئے !" یہ صورت حال آج تقریباً تمام  ادبا شعرا کے گھر کی ہوچکی ہے ۔ ان کی تحاریر ان کی نسل دوسری زباں کے توسط سے پڑھ رہی ہے - اگر انھیں شعر وادب وادب یا والدین سے محبت کے سبب ۔۔اطفال ادب جو لکھا جارہا ہے اسے اطفال نہیں بلکہ لکھنے والے پڑھ رہے ہیں ۔۔انتہائی غریب طبقے کے بچے سرکاری اسکول یا مدارس سے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔۔ غریب گھرانے میں اتنی وسعت کہاں کہ بچوں کے شوق کی آبیاری کریں ! یا پھر انھیں زباں وادب سے کیا سروکار کہ اس کے متعلق سوچیں۔ادب اطفال ، آج تک پرانے انداز میں لکھا جارہاہے۔۔ جبکہ ضرورت ہے کہ آج کے بچوں کی  بدلتی ہوئی ذہنیت اور ان کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا  جائے -ٹی وی پہ کارٹون سیریز یا پھر موبائل پہ تفریح کے نت نئے انداز سے محظوظ ہونے کے وسائل موجود ہیں تو طوطا ، مینا ، بدھو بادشاہ کی کہانیاں کون پڑھے ؟  بچوں کو مادری زباں سے آشنا کرنا ہے تو ۔۔اردو زباں میں بچوں کے لیے ویب سیریز۔یا فلمیں بنائیں اور دکھائیں جائیں ۔اطفال ادب کے لیے وافر  ایپ بنائیں ! اور بچوں کو اپنی زباں اور تہذیب کی اہمیت انہی وسائل ذرائع کے توسط سے نہ صرف سمجھا جائے ، بلکہ راغب بھی کیا جائے۔ بچے خود بخود مطالعے کی طرف متوجہ ہوں گے۔ اہلِ اردو کو چاہئے کہ اسرائیل قوم سے عبرت حاصل کریں کہ انھوں نے کس طرح اپنی زباں کی حفاظت کی ۔

حمیرا علیم:جی درست فرمایا آپ نے۔ شاید آپ کے علم میں نہیں کہ انڈیا میں بھی بیحد شاندار رسائل ہیں جو بچوں کے لیے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق لکھ رہے ہیں۔اقراء اور خیام کے بارے میں تو میں جانتی ہوں یقینااور بھی ہوں گے۔اور کچھ انڈینز نے ہی انبیاء اور قرآن کے قصص کی اینیمیٹڈ سیریز بھی بنا رکھی ہیں اور فقہ پر مبنی کارٹونز بھی بہت اعلی ہیں۔انشراح کے نام سے بچی ہے جس کے ذریعے آداب زندگی سکھائے جاتے ہیں۔کام تو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں جگہ ہو رہا ہے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ بچے ان سب کی بجائے مغربی ماردھاڑ والے فضول قسم کے کارٹونز میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔میں نے ایک سال کی عمر سے اپنے بیٹوں کو ہمیشہ اسلامی دعائیں اور ویڈیوز دکھائیں۔مگر جونہی وہ اسکول جانے لگے انہوں نے کارٹون نیٹ ورک اور نک دیکھنا شروع کر دئیے۔

جبین نازاں: تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں ۔۔میں دہلی کی بات کررہی ہوں ۔۔(دیگر ریاست مستثنی ہیں ۔۔۔۔)پوری دہلی میں اردو رسائل و جرائد کی صرف دودوکان ہیں ۔۔ایک جامع مکتبہ ۔۔ دوسری ۔۔۔ میںاکثر پیشتر رسائل و جرائد خریدنے جاتی ہوں۔۔ مجھے ایک بھی عام قاری وہاں نہیں ملا ۔۔اردو کے شعرا، ادبا کے علاوہ۔۔ یہاں اردو کا یہ حال ہے کہ آپ مساجد میں جائیں ۔۔جتنی دعائیں ،نظام الاوقات وغیرہ ۔۔انگریزی اور ہندی زبان میں تحریر کردہ ملے گی ۔ سرکاری رسالہ جو سب سے قدیم رسالہ ہے ،ماہنامہ ’’آجکل‘‘ ' نزع کے عالم میں ہے ۔۔خبر ہے جلد ہی بند ہوجائے ۔۔۔سیماب اخبر آبادی کے ہاتھوں شائع ہونے والا معروف ادبی ماہنامہ’’ شاعر‘‘ 93 سال بعد بند ہوچکا ہے۔ سب سے پراناروز نامہ اخبار ’’انقلاب‘‘ بند ہونے والا تھا جسے "دینک  جاگرن "نے خرید کر حیات نو بخشی ۔۔۔’’ماہنامہ شمع‘‘،  بیسویں صدی کب کا بند ہوچکا (بیسویں صدی کا ایک آدھ شمارہ سال میں ایک بار آجاتا ہے ) ۔ قدیم ماہنامے تقریباً تمام بند ہوچکے ہیں ۔۔ ایک دو ہیں بھی تو وہ بھی اب سہ ماہی نکالے جارہے ہیں ۔۔۔ان کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ویسے ’’جی کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘ کے مصداق اردو کی فی الوقت سب سے اچھی صورت حال مہاراشٹر میں ہے ۔۔۔حیدرآباد ، اور بہار میں بھی صورت حال دگر گوں ہے۔ کیوں کہ نئی نسل جو تیار ہورہی ہے ۔۔وہ انگریزی میڈم کی پروردہ ہے۔ اس میں ارد و کے معروف و مشہور ادبا کے بھی نام شامل ہیں ۔ خواہ وہ مشرف عالم ذوقی/ تبسم فاطمہ کی نسل ہو یا ترنم ریاض / ریاض پنجابی/  ذکیہ مشہدی/ شفیع مشہدی ۔۔وغیرہ وغیرہ ۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں ۔

ثریا حیا:جو گھرانے اسلامی اصولوں پر چل رہے ہیں وہاں یہ سب نارمل ہے۔بچوں کو دعائیں اور گیارہ ابتدائی صورتیں یاد کرائی جاتی ہیں۔۔اب تو اسکولوں میں بھی قران کا پیریڈ ہوتا ہے ناظرہ بھی پڑھایا جاتا ہے۔۔ہم یہ الزام تعلیمی اداروں پر نہیں رکھ سکتے۔۔ تربیت کا گہوارہ گھر ہوتا ہے۔۔آپ جبراًرات کو سوتے وقت تمام اسلامی دعائیں،کلمے اور گیارہ صورتیں سنیں۔موبائل اورلیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ کے استعمال پر چیک رکھیں وقت کاتعین کریں۔۔ بچے کا زیادہ وقت گھر پر گزرتا ہے۔کارٹون نیٹ ورک دیکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔۔بعض مشہور سیریز ہیں جو بچے دیکھ سکتے ہیں۔

ثریا حیا:یہ بہت بڑا المیہ ہے۔۔پاکستان میں قدرے بہتر حالات ہیں۔۔رسائل کم اورکچھ غیر میعاری ضرور ہیں مگر پھر بھی شائع ہو رہے ہیں۔۔۔ویسے کوئی کام مشکل نہیں اگر”ہمتِ مرداں مددِ خدا“ کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے۔۔

جبین نازاں: اردو کا یہ حال اردو والوں نے کر رکھا ہے۔ ہندو پاک میں، آپ کے یہاں اگر لوگ دیانتدار مخلص ہوتے ارد و زباں کے تئیں، تو اردو صرف سرکاری رجسٹرس میں قومی زبان نہیں ہوتی ۔۔ سرکاری کام کاج انگریزی زبان میں نہیں ہوتے ۔۔۔۔ بلکہ اردو زبان میں ہوتے ؟ 2001ء کے بعد متوسط طبقہ ہی نہیں بلکہ غریب طبقے کے یہاں وجود میں آنے والی نسل بھی انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کررہی ہے۔کیوں کہ اسے بھی روشن مستقبل انگریزی زبان میں نظر آرہا ہے ۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کم وبیش دونوں جگہ اردو کی صورت حال مجھے یکساں نظر آتی ہے ۔

تبسم حجازی: انگریزی میڈیم میں بچوں کو پڑھانے والی بات سے متفق ہوں آج انڈیا، پاکستان دونوں جگہ یہی سچویشن ہے ۔۔لیکن انڈیا میں جو اردو کے حالات ہیں اس کے ذمہ دار خود اردو والے ہیں اس بات سے اتفاق نہیں ہے۔ انڈیا میں اردو کو ختم کرنے کی کوشش سیاسی اور غیر سیاسی سطحوں پر کافی منظم طریقہ سے ہوتی رہی ہے۔

ثریا حیا:انگریزی میڈیم اسکول ہو یا اردو میڈیم اردو کا حال دگرگوں ہے۔۔اردو، بچہ جتنی اپنی ماں سے سیکھ سکتا ہے اور کہیں سے نہیں سیکھ سکتا۔۔آج کی ماں اس معاملے میں سنجیدہ نہیں۔۔مگر ہر جگہ ایسا نہیں کہیں کہیں ”آتی ہے اردو زباں آتے آتے“ پر بھی عمل کیا جاتا ہے۔ ماں بچے کو اردو متبادل بتائے۔۔خود روزمرہ کی بول چال میں انگریزی کو بحالتِ مجبوری شامل کرے۔۔اس میں بچے کے تجسس کو بھی دخل ہوتا ہے۔میرا پوتاباہرجو انگریزی الفاظ پڑھتا ہے اس کامتبادل اردو میں پوچھتا ہے۔وہ انگریزی گنتی کے ساتھ ان کے اردو متبادل بھی جانتا ہے۔اور بھی کئی بچے ایسے ہوں گے ہمیں ان کو مثال بنانا چاہیے۔۔میرا ماننا یہ ہے کہ اردوکی ترویج میں ماں سب سےبہترکردار ادا کر سکتی ہے۔۔کیونکہ اس کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔

جبین نازاں: اہل اردو ہوں ذمے دار کہ وہ زباں کو صرف اپنے حصول کا ذریعہ سمجھ کر استعمال کرتے رہیں۔ جو واقعتا اردو کے ہمدرد اور جانثار تھے وہ حاشیے پر ڈال دیئے گئے۔ سیماب اکبر آبادی کا خاندان ماہنامہ 'شاعر ' کی بقا کے لیے کیا کیا جتن کرتا رہا ، ہم سب اس سے واقف ہیں ۔ لیکن اردو کے "ہرجائی معشوق" نے اس خاندان کی مساعی کو نہ سراہا ۔۔اور نہ ہی "شاعر "کی اشاعت میں مالی معاونت کی۔ میں صرف دومثال دوں گی۔ ڈی ڈی اردو چینل کو حکومت جو گرانٹ دیتی ہے ، اس گرانٹ کا نصف حصہ بھی خرچ نہیں کرتا اس چینل کا ڈائرکٹر ۔۔ہر سال بچی ہوئی رقم واپس لوٹاتا رہا ۔۔ تاکہ حکومت کا منظور نظر رہے ۔۔۔گھسے پٹے سیریل دکھاتا ہے جو دیگر چینل پر بیس پچیس سال ریلیز تک ہوچکا ہے۔ نہ اشتہار ۔۔نہ دیگر چینل کی مانند تفریحی پروگرام۔یہاں تک کہ ملازم کی تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں۔ اڈوک ملازم کی تنخواہ مستقل ملازم کی بہ نسبت تہائی تنخواہ (ایک لاکھ× 35 ہزار) دس بیس سال سے یہی صورت حال ہے حکومت آتی جاتی رہتی ہے، لیکن اس چینل کی تقدیر بدلی اور نہ اڈوک ملازم کی سوائے ڈائرکٹر کے ۔۔ وہ دن دور نہیں جب یہ چینل بند ہوجائے گا۔ تو پھر اہل اردو اسے سیاسی سازش اور حکومت کی اردو دشمنی سے تعبیر کرتے پھریںگے ۔ایسے میں اردو کی بھلائی کیسے ہوسکتی ہے۔۔؟ اردو فروغ کونسل کا قیام عمل میں آیا اس کے پہلے چیئر مین نے بھی اس ادراے کو ملنے والی رقوم میں خرد برد کی ۔۔ یہ صرف الزام نہیں، بلکہ یہ مجرم پائے گئے۔ اور انھیں عہدے سے برخاست کیا گیا۔ بہار اردو اکادمی کو بہارنے حکومت ایک کروڑ گرانٹ دی، نتیش سرکار کی پہلی مدت کی بات کررہی ہوں ۔۔بھوجپوری زبان کی اکیڈمی کو 50 لاکھ روپے ملے ۔۔۔یہاں بھی وہی حال ۔۔جبکہ بھوجپوری اکیڈمی کے صدرنے اپنی زباں کے لیے اس قدر کام کیاکہ بھوجپوری زبان کا قد اور قدر اس قدر بڑھا کہ بہار کی ہر گلی کوچے میں بھوجپوری زباں سنی جانے لگی ۔۔اردو اکادمی کے صدر نے 50 لاکھ روپیہ استعمال کیا10، پندرہ ہزار روپیہ کتابوں پہ انعام دینے ، کتابوں کی اشاعت میں تعاون ۔۔بہار اردو اکادمی کا ماہانہ مجلہ کی اشاعت تک محدود ۔۔اردو کے نام پہ اتنا بھر کام کرنا رہ گیاہے ؟ 50 لاکھ روپیہ حکومت کو واپس ۔۔دوسرے سال یہ ہوا کہ اردو اکیڈمی کو 50 لاکھ روپیہ ملا اور بھوجپوری اکیڈمی کو 1کروڑ ۔۔۔اب بتائیں اردو کو ختم کرنے کی یہ سیاسی سازش ہے ؟؟ سیاست داں تو عوام کے محکوم ہوتے ہیں ۔عوام جس طرح چاہیں سیاست داں پہ حکومت کرسکتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اہل اردو میں کوئی سنجیو صراف اور کامنا پرشاد نہیں ہوتے ۔۔۔؟؟ اتنا بڑا ادارہ فروغ اردو کونسل جو کام نہ کرسکا وہ تن تنہا سنجیو صارف نے کیا ۔۔اردو کی انجمنیں، اکیڈمیاں رزق کا حصول بن کر رہ گئی ہیں ۔۔چند افراد کے لیے بس ۔۔۔اس سے اردو کا بھلا نہیں ہونے کا ۔۔یہ تلخ حقیقت ہے ۔ اور بھی کئی مثالیں ہیں لیکن قصہ مختصر کرتی ہوں ۔

اطہر کلیم:       ٹیکنالوجی پر بہت سی باتیں ہوئیں۔۔ میں اسی پوائنٹ پر مزید کچھ گفتگو کرتے ہوئے اختتام کی جانب بڑھوں گا.. مجھے یہ بتائیے کہ آن لائن رسائل، اخبارات اور کتابوں کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ان کے نقصانات پر بھی بہت بحث ہوتی ہے۔۔ آپ کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت ہے یا ہمیں ان کے نقصانات کو مد نظر رکھتے ہوئے پرنٹ ورژن پر ہی اکتفا کرنا چاہئے؟

جبین نازاں:  پرنٹ ورژن کی جتنی اہمیت ہے بدلتے وقت کے ساتھ آن لائن رسائل و جرائد کی اہمیت و افادیت بھی اتنی ہی ہے۔ دنیا میں کوئی ایسی شئے اب تک وجود میں نہیں آئی کہ جس کےصرف مثبت پہلو رہے ہوں ۔۔ہر شئے اپنے ساتھ منفی پہلو بھی رکھتی ہے ۔

زیب النساء زیبی: آن لائین رسائل اور مواد کی اتنی اہمیت ضرور ہے کہ دنیا میں کسی جگہ کا بھی مواد آپ کو آسانی سے میسر آجاتا ہے یہ ایک بہت بڑی سہولت ہے کتب پہ تبصر ہ کرنا ہو ریسرچ کرنی ہو آن لائن کی جا سکتی ہے ۔۔۔ ویسے کتب اور رسائل کی hard copy ہی پڑھنے میں دلچسپی برقرار رہتی ہے۔

ثریا حیا:آن لائن رسائل و جرائد فاصلوں کو سمیٹ لیتے ہیں۔ دوریوں کو کم کردیتے ہیں مگر کتاب کی برابری نہیں کر سکتے۔۔۔ ریختہ پر بہت سا مواد موجود ہے مگر وہاں بھی تشنگی کا احساس برقرار رہتا ہے۔۔یہ ضرور ہے کہ آن لائن رسائل و جرائد ایک دوسرے کے ادب کو جاننے کا مواقع فراہم کرتے ہیں۔۔مگر جو بات کتاب کے سے سکون بخشتی ہے وہ آن لائن مطالعے میں موجود نہیں ہوتی میرا ذاتی خیال یہ ہے ، آن لائن رسائل و جرائد کی ترسیل بس وہیں کی جائے جہاں ضرورت ہے مثال کے طور پر جس شہر میں کتاب چھپی ہو اس کی پی ڈی ایف اسی شہر کے رہنے والوں کو فراہم نہ کی جائے اگر لوگ پڑھنا چاہیں تو وہ کتاب ہی پڑھیں۔۔ایک ایک لفظ لطف دیتا ہے اگر شوقِ مطالعہ ہو۔۔نتیجے کے طور پر یہی کہوں گی کہ پرنٹ ورژن اور آن لائن مواد دونوں ہی ضروری ہیں۔۔مگر کتاب کی حیثیت اپنی جگہ مسلّم ہے اور رہے گی۔

حمیرا علیم:سچ تو یہ ہے کہ پی ڈی ایف اور آن لائن کتب پڑھنا بہت آسان ہیں کہیں بھی کسی بھی وقت دوسروں کو ڈسٹرب کیے بغیر انسان اپنے موبائل میں انہیں پڑھ سکتا ہے۔نہ لائٹ آن کرنے کی ضرورت نہ ہی بھاری کتاب اٹھانے کی زحمت۔ہزاروں سائٹس ہیں جو فری اور بہت کم فیس پر لاکھوں کتب فراہم کر رہی ہیں اور کروڑوں لوگ انہیں پڑھ رہے ہیں۔لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان پبلشر اور ادیب کو ہوتا ہے کیونکہ لوگ کتاب خریدتے نہیں بلکہ پی ڈی ایف میں ہی پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔لیکن ایک فائدہ بھی ہے کہ جو لوگ کتاب خریدنا افورڈ نہیں کر سکتے وہ بھی انہیں پڑھ سکتے ہیں۔مجھے یاد ہے جب میں نے ماسٹرز کیا تھا تو یہ سہولت موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے کتب ڈھونڈنی پڑتی تھیں اور نہایت مہنگی ملتی تھیں۔آج میرے بچے اپنی اسائنمنٹس کے لیے گوگل پر چند منٹوں میں کئی کتب کنسلٹ کر لیتے ہیں۔ہر چیز کے کچھ فوائد ہوتے ہیں تو نقصانات بھی ہوتے ہیں۔

تبسم حجازی: آن لائن رسالوں اور ڈیجیٹل کتابوں کے متعلق میں اپنا موقف اپنے ایک مضمون "کتابوں کا سفر" میں تفصیلی بیان کر چکی ہوں۔۔ اس معاملہ میں ہمارے یہاں دو بڑی غلط فہمیاں ہیں۔ ایک یہ کہ کتاب جسے کہتے ہیں وہ پرنٹڈ کتاب ہی ہوسکتی ہے اور دوسری ڈیجیٹل کتاب کا مطلب اللیگل بنائی کوئی پی ڈی ایف جو پبلشر کی اجازت بغیر بنائی گئی ہو ۔

  پہلی بات یہ ہے کہ قبل مسیح سے آج تک کتاب کی شکل و صورت ہمیشہ تبدیل ہوتی رہی ہے۔پتھر پر لکھی تحریر ہو یا درختوں کی چھال پر ۔۔کاغذ پر یا کمپیوٹر اسکرین پر کتاب کتاب ہی ہے۔۔ ہاں ہماری نسل اور پچھلی صدی کے آخر تک پیدا ہونے والی نسل پرنٹڈ کتاب کو ہی "کتاب " سمجھتی ہے اور اس کے ختم ہونے سے خوف زدہ ہے اور یہ کہا جانے لگا ہے کہ کتاب ختم ہورہی ہے۔ یقینا کاغذ پر چھپی کتاب پڑھنا ہم لوگوں کو جو لطف دیتا ہے وہ ڈیجیٹل کتابوں سے نہیں آسکتا ۔۔کتابوں سے یہ اٹیچمنٹ فطری ہے۔ ہر دور میں ہوتا ہے۔۔ نئی تبدیلی پرانی نسل کے لئے مشکل ہوتی ہے ۔ دوسری بات ڈیجیٹل کتاب کا مطلب اللیگل چھاپ کر منصفین اور پبلشر کو نقصان پہنچانا نہیں ہے ۔۔آج کل دنیا بھر کے پبلشر پرنٹڈ کتابوں کے ساتھ اس کے ڈیجٹل ورژن بھی مناسب داموں پر قانونی طور پر مہیا کرتے ہیں۔ اور آن لائن اخبارات اور رسائل کی بھی باقاعدہ ماہانہ فیس ہوتی ہے۔ 

پرنٹڈ کتابیں چھپ رہی ہیں اور چھپتی رہیں گی لیکن نئی نسل ڈیجٹل کتابوںسے جُڑی ہے۔یہاں اسکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک کی نصابی کتب ڈیجیٹلائز ہوچکی ہیں اگر ہمیں اپنا کام، اپنی تہذیب اپنی زبان ،نئی نسل تک پہچانی ہے تو ہر جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا ۔۔ آج کل کئی مصنفین خود اپنی کتاب ڈیجیٹل شکل میں مہیا کرتے ہیں جیسے میں نے اپنی کتاب امیزان پر ڈیجیٹل شکل میں بھی قارئین کے لئےرکھی ہے ،اور آپ لوگوں نے جو اقرا کے ذریعہ قدم اٹھایا ہے وہ بھی قابل تعریف ہے ۔امید ہے کہ اردو ادب سے متعلق دوسرے افراد بھی اس چیز کو سمجھیں گے ۔

ثریا حیا: تبسم صاحبہ میں متفق ہوں آپ سے۔۔۔ہم پرنٹڈ کتابوں سے اور نئی نسل ڈیجیٹل کتابوں سے جڑی ہے۔۔۔کتا بیں چھپ رہی ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ خریدنے والے بہت کم۔پبلشر تو کتاب کی طباعت کی قیمت پھر بھی لے لیتے ہیں۔۔مگر لکھنے والا خسارے میں رہتا ہے۔۔کتابیں زیادہ تر بانٹ دی جاتی ہیں۔مگر پھر بھی چند اہلِ دل ہیں جو کتاب خرید کر بھی پڑھتے ہیں۔۔کتاب کا فروخت ہونا ایک مشکل امر ہوگیا ہے۔۔خیر بات ڈیجیٹل اور پرنٹڈ مواد کی ہو رہی تھی دونوں ہی اپنی اپنی ضرورت کے مطابق اہمیت رکھتے ہیں۔

تبسم حجازی:میں خود رائٹر ہوں اور آپ کی بات سمجھ سکتی ہوں کہ آج کل بر صغیر میں کتابوں کی کیا صورت حال ہے۔ اس لئے یہ اور بھی ضروری ہے کہ ہم عمدہ کوالٹی کی ڈیجیٹل بکس تیار کریں تاکہ خرچ کم ہونے کے ساتھ اس کے پہنچ بڑھے ۔۔دنیا کے کونے کونے میں اردو لکھنے پڑھنے والے موجود ہیں لیکن ہر کوئی برصغیر میں چھپنے والی کتاب نہیں منگوا سکتا۔۔بد قسمتی سے اکثر ڈیجٹل پلیٹ فارمز پر اردو کا سپورٹ موجود نہیں ہے کیونکہ اردو میں سنجیدگی سے یہ کام نہیں ہو رہا ہے۔ اس کے لئے سب کو کوشش کرنی چاہیے خاص طور پر ہمارے پبلشرز کو ۔وہ ڈیجٹل کتاب کو اپنا دشمن نہیں آمدنی کا نیا ذریعہ سمجھیں اور امیزان جیسے بڑے پلیٹ فارم کے ساتھ مل کر اردو کی ترقی کے لئے کام کریں۔

ثریا حیا:درست فرمایا۔۔یہ وقت کی ضرورت ہے۔

اطہر کلیم:      اس سے پہلے کہ میں اس سیشن کے اختتام کا اعلان کروں یہ اعتراف کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ مباحثہ اب تک کا میرا بہترین مباحثہ ہے.. بالکل دل نہیں چاہ رہا کہ اسے یہیں روک دوں.. مزید بہت سے موضوعات پر آپ تمام سے گفتگو کرنے اور بہت کچھ سیکھنے کی خواہش ہے مگر وقت اور طوالت مجبوری بن کر سامنے کھڑے ہیں.. آخر میں آپ سبھی سے درخواست ہے کہ ماہنامہ اقراء کے قارئین کے لئے اگر آپ کوئی پیغام دینا چاہیں تو ضرور دیجئے.. نیز اقراء کی ٹیم کو اپنے مفید مشوروں سے نوازئیے تاکہ آئندہ اس رسالے کی بہتری کے لئے اقدامات کئے جاسکیں..

زیب النساء زیبی:اس عہد میں رسائل شائع کرنا کوئی آسان کام نہیں ادب کی ترقی و ترویج کے لیے اقرا جو محنت طلب کام کر رہا ہے اللہ اس میں آسانی پیدا کرے آمین۔

ثریا حیا:آپ لوگ بہت احسن خدمات نجام دے رہے ہیں۔۔اس عہد میں اقرا کا جاری ہونا ایک نعمت سے کم نہیں۔۔نوجوان نسل کو ادب شناس و ادب نوازبنانا میری نظر میں ایک جہاد ہے۔۔میری تمام شرکا سےگزارش ہے کہ اس کاوش کو بار آور ہونے میں تعاون کریں تاکہ نئی نسل ادب اور اس کےعصری تقاضوں سے بہرہ مند ہو سکے۔۔میں اقرا کی ٹیم کو تہہِ دل سے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔

حمیرا علیم:ماشاءاللہ آپ بہت عمدگی سے یہ رسالہ اور سائٹس نہایت عمدگی سے چلا رہے ہیں۔اقراء کا معیار نہایت اعلی ہے۔ہمیشہ بہت معلوماتی اور ریسرچڈ مضامین شائع ہوتے ہیں۔قارئین کو آپ اپنے مضامین اور کہانیوں کے ذریعے بہت اچھے اسباق اور پیغامات دے رہے ہیں۔امید ہے کہ وہ ان سے بہت کچھ سیکھ رہے ہوں گے۔ آپ نے دس ہزار لوگوں کو کتاب سے جوڑ رکھا ہے یہ ایک بڑی کامیابی ہے اللہ تعالیٰ آپ کے کام میں برکت عطا فرمائے۔آمین۔

تبسم حجازی:آپ لوگوں نے اقرا کے ذریعہ جس کام کی ابتدا کی اور جس طرح انتھک محنت سے اسے اس مقام پر پہنچایا ہے اس کے لئے آپ سمیت پورا ادارہ داد کا مستحق ہے۔ اقرا میں گذرتے وقت کے ساتھ مثبت تبدیلیاں آتی رہی ہیں اور یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ اقرا کے قاریوں کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی ہے ۔اس میں مزید اضافہ کی کوشش جاری رکھیں اور اردو سے متعلق مختلف سوشل میڈیا گروپس میں اقرا کو پہنچائیں ۔۔ ایک چیز جس کی کمی اقرا میں محسوس ہوتی ہے وہ قارئین کی آرا ہیں جو لکھاریوں تک نہیں پہنچتی ۔ آج کل چھپنے والے اکثر ڈائجسٹ اور رائیٹرز کے اپنے فیس بک پیچ ہیں۔ اگر اقرا کا کوئی بھی فیس بک پیج وغیرہ بن سکے تو اقرا کے قارئین اپنی رائے لکھنے والوں تک ڈائیریکٹ پہنچا سکیں گے اور نئے لکھنے والوں کے لئے اقرا تک اپنی تحریر پہنچانا آسان ہو سکتا ہے۔

اطہر کلیم:          آپ نے بڑی اچھی بات کی، بلکہ آپ تمام کے مشورے بہت اچھے ہیں ان شاءاللہ ان پر عمل کرتے ہوئے اقراء کی بہتری کے لئے اقدامات کئے جائیں گے. اس سے پہلے کہ میں اس نشست کے اختتام کا اعلان کروں آپ تمام کا شکریہ مجھ پر اور ہماری پوری ٹیم پر واجب ہے.. زیب النساء صاحبہ اور ثریا حیا صاحبہ جیسی پختہ کار و کہنہ مشق قلمکاروں کی موجودگی نے نہ صرف اس پینل کو رونق بخشی بلکہ انھوں نے جس طرح اپنے تجربات کا نچوڑ اس مباحثہ میں پیش کیا اس سے یقیناً قارئین کو بہت فائدہ ہوگا.. تبسم حجازی صاحبہ، حمیرا علیم صاحبہ اور جبین نازاں صاحبہ کی موجودگی نے اس پینل میں جدیدیت اور روایت کے توازن کو برقرار رکھا اور اس توازن کی وجہ سے آپ سب کی آپس میں بحث بہت اچھی ہوئی.. ایک بار پھر سے آپ تمام کا بہت بہت شکریہ.. اس امید کے ساتھ الوداع کہتا ہوں کہ آئندہ بھی آپ کے قیمتی وقت سے کچھ حصہ ماہنامہ اقراء کو ضرور ملے گا.. اللہ حافظ

حمیرا علیم:جزاکم اللہ خیر کہ آپ نے مجھے اس پینل کا حصہ بننے کا شرف عطا فرمایا۔اللہ تعالیٰ آپ کے کام میں برکت ڈالے۔

اطہر کلیم:          آمین یارب العالمین۔

٭٭٭٭٭٭



Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.