Type Here to Get Search Results !

”ایک زندگی کٸ جنم“

از  :  کِرن صِدّیقی





       کھڑکی سے باہر کا منظر حسب معمول تھا برابر والے گھر کے باہر لگا نیم کا گھنا درخت جس کی کچھ شاخیں اس کمرے کی کھڑکی کو بھی آکے چھوتی تھیں جب بھی تیز ہوا چلتی یہ البیلی شاخیں ہوا کے خودسر جھونکوں کے ساتھ مستانہ وار لہرا کے اس کمرے کی کھڑکی کے آگے رقص والہانہ کرتیں کبھی کبھی ہوا کی لہروں پہ رقص کناں یہ شاخیں دھوپ اور ساۓ کے امتزاج سے تصویریں سی بنادیتیں سیاہ و سفید تصویریں جو کبھی تو ماضی کی کسی یاد کو سامنے لے آتیں اور کبھی حال کا کوٸ قصہ دہرادیتیں۔ جب کبھی اس کا جی گھبراتا یا طبیعت اداس ہوتی تو وہ اس کھڑکی کے سامنے پڑی کرسی پہ آکے بیٹھ جاتی اور نیم کی شاخوں کا دھوپ کے ساتھ بنتے بگڑتے سایوں کا کھیل دیکھتی اور اس منظر کودیکھتے دیکھتے جیسے کہیں کھو سی جاتی اور اس طرح اس کی تھکن، اداسی کہیں دور چلی جاتی۔
      آج بھی یہ ہی ہوا۔ دھوپ اور سایوں کے بنتے بگڑتے زاویوں نے ماضی کے دریچے کھول دیۓ تھے نجانے کیا کیا یاد آرہا تھا اُسے یوں لگا کہ جیسے وہ دور رفتہ میں چلی گٸ ہو ابتداٸ عمر کا زمانہ جب بےفکری تھی کوٸ پریشانی کوٸ غم نہ تھا بابل کی آنگن کی چڑیا خوشی سے چہچہاتی ہنستی گاتی سب کے من کو لُبھاتی تھی بیٹی ہونے کے ناتے سب کی لاڈلی تھی ماں باپ کی محبت بھری آغوش میں بچپن بیتا تو لڑکپن اور نوعمری کا زمانہ بہن بھاٸیوں کے ساتھ مسکراتے کھلکھلاتے معصوم سی شرارتوں، چھوٹی چھوٹی لڑاٸیوں اور ایک دوسرے سے روٹھنے منانے میں گزرا بھاٸ بہنوں کے ساتھ محبت بھرا تعلق کہ بڑے بہن بھاٸیوں سے لڑجھگڑ کے بات منوانا چھوٹوں پہ رعب جمانا بڑا سنہرا وقت تھا وہ پھر کب بچپن بیتا جوانی آٸ معلوم ہی نہ ہوسکا اب ماں باپ اور گھر کے بزرگ اسے بڑی اداس نظروں سے دیکھتے ماں تو اسے دیکھتے ہی آنچل کے کونے سے آنکھیں صاف کرنے لگ جاتیں یا کبھی ٹھنڈی آہیں بھر کے اسے دیکھتی رہتیں جبکہ اس کی اپنی بہنیں، رشتے کی بہنیں اور سہیلیاں اس کے آٸندہ بننے والے رشتے کے حوالے سے ایسے گدگدادینے والے مذاق کرتیں کہ وہ شرم سے دوہری ہوجاتی اسے ان کی میٹھی میٹھی سرگوشیاں اور کھٹ مٹھی باتیں اچھی لگتیں لیکن کبھی کبھی وہ بابل کا آنگن چھوڑنے کے خیال سے اداس بھی ہوجاتی نجانے وہ لوگ کیسے ہوں گے، زندگی کس طرح گزرے گی ان کے ساتھ اور پھر بآلاخر وہ دن آہی گیا کہ وہ رخصت ہو کے پراۓ گھر آٸ کہنے کو پرایا گھر تھا لیکن وہ تو بہت اپنا تھا جو یہاں لے کر آیا تھا خود سہرا سجا کے، اسے لال جوڑا پہنا کے اور ڈولی میں بٹھا کے۔ وہ سارے منظر آج بھی اس کی نگاہوں میں یوں تازہ تھے جیسے ابھی زمانہ۶حال کی بات ہو گویا ابھی ابھی اسے پسند کیا گیا ہو اس کا رشتہ طے کیا گیا ہو اس کے سسرال والوں کا آناجانا ساس نندوں کا صدقے واری جانا اس سے التفات کا اظہار، یہ سب ایک نیا احساس تھا مگر بہت ہی پرکیف تھا پھر شادی کی تقریبات اور دلھن بننے کے مراحل، ماں تو دلگرفتہ سی گھوم رہی تھیں لیکن بہنیں باوجود اس کی جداٸ کے صدمے کے اس کی نٸ زندگی کے بارے میں سوچ کے خوش بھی تھیں اور اس کے لیے دست بہ دعا بھی۔
     زندگی کا دوسرا دور بہت خوشگوار تھا شادی کے شروع کے دن تو نازبرداریوں دعوتوں کھانے پینے گھومنے پھرنے اور سجنے سنورنے میں ایسے گزرے کہ معلوم ہی نہ ہوسکا کہ دن کہاں کیسے گزرا اور رات کب آٸ ان دنوں تو اسے یہ بھی خبر نہ تھی کہ سورج کب نکلتا اور کب ڈھلتا ہے یہ خواب آگیں دور بہت جلد گزر گیا اور پھر اسے معلوم ہوا کہ اب وہ لاپروا سی لاابالی لڑکی نہیں بلکہ گھر کی ایک ذمہ دار فرد ہے اس کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں جو اسے ادا کرنا ہیں ذمہ داریوں کے حوالے سے یہ دور بہت زیادہ نازک اور کٹھن تھا ان سب سے اسے پہلے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا لیکن پیار کرنے والے اور ساتھ دینے والے جیون ساتھی کی رفاقت نے ہر مشکل آسان کردی تھی ان دنوں اسے احساس ہوا کہ گھر گرہستی چلانا آسان نہیں یہ بےحد مشکل کام ہے اور خاص طور پہ بھرے پرے گھر میں تو یہ اور بھی مشکل ہے وہ بھی ایک ایسی لڑکی کے لیے جو نوعمر تو ہو ہی لیکن جس نے کبھی ان ذمہ داریوں کا بار اٹھایا نہ ہو یہ تو گویا پل صراط پہ چلنے کے مترادف ہے لیکن یہ اس کی ماں تربیت اور دعاٸیں تھیں کہ اس امتحان میں بھی اسے ناکام نہ ہونے دیا ساس سے پوچھ پوچھ کے ہر کام کرنے کی عادت نے اسے ہر مقام پہ شرمندگی سے بچایا میکے اور سسرال کی ریتوں رسموں اور طور طریقوں میں تو اتنا فرق نہیں تھا جتنا اس کی حیثیت میں فرق تھا وہاں وہ لاڈلی بیٹی تھی اور یہاں ذمہ دار بہو، بیوی اوربھابی تھی اسی ایک احساس نے اسے بدل کر رکھ دیا تھا میکے میں لڑ جھگڑ کر بھی سب بہن بھاٸ ایک ہوجاتے تھے دل صاف کرکے پھر پہلےکی طرح ہنسنے بولنے لگتے تھے بہن بھاٸیوں کا ایک دوسرے سے روٹھنے منانے کا عمل محبتوں میں اضافہ کرتا تھا لیکن سسرال میں وہ ہر معاملے میں محتاط ہوگٸ تھی کوشش کرتی تھی کہ کوٸ ایسی بات نہ کرے کہ کسی کو ناگوار لگے کسی بات کسی مذاق کے جواب میں بس ایک ہلکی سی مسکراہٹ اور یہ چیز اس کے وقار میں اضافہ کرتی تھی اس کی حیثیت کے شایان شان بھی تھی جس کے نام سے وہ یہاں آٸ تھی اس کی وہ ہم دم ہم راز تھی ہی لیکن اس سے وابستہ ہر رشتے کے ساتھ بھی وہ ایسے ہی بندھی تھی کہ وہ اس کے لیے انتہاٸ اہم تھے ساس سسر ماں باپ جیسے تھے لیکن ان کے سامنے بہت سنبھل کے رہنا پڑتا تھا کوشش ہوتی کوٸ ایسا کام نہ کرے کہ کسی کو شکایت پیدا ہو جیٹھ کے لیے وہ چھوٹی بہن تھی تو دیور کے ساتھ اس کا رویہ اس بڑی بھابی جیسا تھا جو ماں جیسی شفیق بھابی تھی حالانکہ وہ اس کا تقریباً ہم عمر ہی تھا بڑی نندیں شادی شدہ تھیں ان کے لیے وہ کوشش کرتی تھی کہ نہ صرف بھابی بلکہ ماں جیسی نازبرداریاں بھی کرے تاکہ ان کا میکے کا مان سلامت رہے چھوٹی نند جو اس سے چار سال چھوٹی تھی اس سے رویہ البتہ اوروں کی نسبت زیادہ بے تکلف تھا اس کےلیے وہ نہ صرف ماں جیسی مہربان بھابی تھی بلکہ بڑی بہن جیسی رہنما اور قریبی دوست جیسی رازدار بھی تھی انھی رنگ برنگے کھٹے میٹھے رشتوں کو نبھاتے وقت گزر رہا تھا اور پھر گزرتے وقت نے اس کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ کیا اور گزرتے گزرتے اس کی جھولی میں اوپر تلے تین بچے ڈال گیا سب سے بڑی بیٹی پھر دونوں بیٹے لیکن اس نے ماں بن کر بھی بہو اور بھابی کے فراٸض فراموش نہ کیے اور دیور نندوں کی شادیوں میں اسی ذمہ داری سے حصہ لیا جو اس کےرشتے کا تقاضہ تھا اور انھیں ان کے گھر بار کا کیا۔
        ماں بننے کے بعد ذمہ داریوں میں بہت اضافہ ہوا سب سے اہم ذمہ داری اولاد کی خصوصاً بیٹی کی تربیت تھی جو اس کے لیے کسی امتحان سے کم مشکل نہ تھی لیکن اس امتحان میں بھی وہ کامیاب رہی بیٹی کی پیداٸش پر اسے لگا جیسے اس نے دوسرا جنم لیا اور اس کی شخصیت کا ایک حصہ اس کی بیٹی کے روپ میں دنیا میں آیا ہو وہ بیک وقت دو زندگیاں جی رہی تھی اسے لگتا تھا کہ بیٹی کے قالب میں بھی اس کا ہی وجود ہے اور وہ دوبارہ سے بچپن لڑکپن نوجوانی کے ادوار سے گزر رہی ہے بیٹی کب بڑی ہوٸ اسے بھی پتہ نہ چلا اور آخِر وہ دن بھی آیا جب اس نے اپنی بیٹی کو دلھن بنا کے رخصت کیا بیٹی کے جانے کے بعد اسے اپنا آنگن تو کیا پوری دنیا خالی خالی لگنے لگی لیکن بیٹی کو خوش دیکھ کر دل میں اطمینان بھر جاتا بیٹی رخصت کرنے کے بعد بہو لانے کی فکر دامن گیر ہوٸ کچھ تلاش کے بعد ایک اچھی سی لڑکی پسند آگٸ اور بہت جلد وہ چاندنی اس کے آنگن میں اجالا کرنے آگٸ لیکن یہ چاندنی صرف چار دن کی تھی کیوں کہ بیٹے کو امریکہ میں ایک بہت اچھی نوکری مل گٸ اور وہ بیوی کو ساتھ لےکر چلا گیا اور کچھ ہی عرصے بعد اس نے چھوٹے بھاٸ کو بھی وہیں بلوالیا ساس سسر کے انتقال کے بعد مکان کے حصے بخرے ہوۓ تو دیور جیٹھ تو تبھی الگ ہوگۓ تھے آنا جانا تو تھا لیکن کم کم کیوں کہ ہر ایک کی زندگی اب بہت مصروف تھی بیٹی کا آنا بھی اب کم ہوگیا تھا کیوں کہ اس کی بھی ذمہ داریاں بہت تھیں اس دن وہ کھڑکی کےپاس کرسی پہ بیٹھی نیم کی شاخوں اور سورج کی شعاعوں کے سنگم سے بننے والی تصویروں کو جو فرش اور دیوار پر بن رہی تھیں اسے لگ رہا تھا جیسے یہ تصویریں ساکت و جامد نہیں متحرک ہیں اور یہ اس کی زندگی کی داستان کو اس کے سامنے پیش کر رہی ہیں زندگی کے چھ عشروں کا سفر اس کی نظروں کے سامنے سے کسی تیز رفتار فلم کی  طرح گزر گیا اور اپنے پیچھے سوال چھوڑ گیا کہ زندگی کے امتحان میں وہ کامیاب رہی یا ناکام؟
اس نے اپنے تمام رشتے بہت ایمانداری سے نبھاۓ وہ ایک فرمانبردار بیٹی، پیار کرنے والی بہن، وفا شعار بیوی اور شفیق ماں تھی اور اپنے بنیادی رشتوں سے منسلک ذیلی رشتوں کے لیے بھی وہ لاٸق احترام اور قابل محبت رہی سسرال اور سمدھیانے کے رشتوں کے لیے بھی وہ مخلص رہی تبھی تو ہر جگہ ستاٸش کی اہل ٹھہری یہ سب اپنی جگہ تھا لیکن جس وقت رشتوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے انسان اسی عمر میں زیادہ تنہا کیوں ہوجاتا ہے اچھے مستقبل کی خاطر اس کے گھر کے گھنے پیڑ کہیں اور چھاٶں دے رہے تھے اتنے بڑے گھر میں وہ اور اس کا شوہر یا کبھی کبھی آنے جانے والے رشتہ دار۔ یہی ہے زندگی کا ماحصل خاص طور پر ایک عورت کی زندگی کا کہ وہ ایک زندگی میں ہی کٸ جنم جی لیتی ہے۔

*******

قلمکار کی رائے سے ادارہ ماہنامہ اقرأ اور اس کے مدیران کا متفق ہونا قطعی ضروری نہیں ہے۔

نوٹ :  ماہنامہ اقرأ کا مارچ اور اپریل 2023 کا مشترکہ شمارہ جلد ہی آپ کی ڈیجیٹل اسکرینس پر ہوگا۔۔ہم کوشش کر رہے ہیں کہ یہ شمارہ ضخامت میں دو شماروں کے برابر ہو تاکہ ناغہ کا ازالہ ہوسکے۔۔ مارچ کا ناغہ یقینا قارئین کو کھل رہا ہوگا۔ اس کے لئے ہم معذرت خواہ ہیں۔۔


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.