Type Here to Get Search Results !

رمضان المبارک کے حوالے سے میرے بچپن کی کچھ یادیں

از   :  رخسانہ نازنین, بیدر (  کرناٹک)





امی ڈھیر سارا ادرک لہسن اور مصالحے پیستیں. خصوصاًٰ کالی مرچ تو میں سمجھ جاتی کہ ماہ رمضان المبارک کی آمد ہے. مسجد شاہ خاموش کی آہک پاشی ہوتی. کھڑی فروش گھوڑوں پہ کھڑی کے تھیلے اٹھائے محلوں میں گھومتے. ہر گھر میں لیپا پوتی ہوتی. چنے کی دال پسوا کر بیسن تیار کرلیا جاتا. اور امی ابا کو کرانے کی فہرست میں چنے کی دال کی زیادہ مقدار لکھواتیں میں جان لیتی کہ افطار میں اب روز چنے کی ابلی ہوئی دال بنے گی جس پہ کالی مرچ چھڑکی جائے گی. امی ٹائم پیس گھڑی میں الارم سیٹ کرتیں. چاند دکھائی دیتا. رمضان کی مبارکبادی دی جاتی. امی. سحری کی تیاری کر نے لگتیں اور میری ضد شروع کہ مجھے بھی جگایا جائے میں بھی سحری کرونگی تاکہ گرما گرم کھچڑی گھی کے ساتھ کھانے کا لطف اٹھا سکوں. سحری کے لئے جگانے والے فقراء کی منظوم صداؤں کی بازگشت آج بھی سماعتوں میں گونجتی ہے 

"ماہ رمضان ہوا آشکارہ 

روزہ داروں کا چمکا ستارہ" 

"نیند عجب غفلت ہے بندے 

سویا کھویا سویا کھویا "

"بہت مقبول ہوتی ہے عبادت ماہ رمضان کی "

"رمضان گلبہار تشریف لائے یار. 

اور نہ جانے کیا کیا... "

چوبارے کے واحد سائرن کی آواز پورے شہر میں گونجتی. سب پانی پیتے. سحری کے بعد ابا فوراً کہہ دیتے کہ میری بیٹی کھاتا پیتا روزہ ہے. یعنیٰ میرا دل بھی رکھ لیا کرتے. اور فجر کی نماز کے بعد امی سلام پڑھتیں. میں بھی انکا ساتھ دیتی. امی مجھے گود میں اٹھا لیتیں تاکہ مجھے غم نہ ہو کہ میں بیٹھی ہوئی ہوں. جب بھی قرآن خوانی یا آیت کریمہ کی محافل میں سلام پیش کیا جاتا. سبھی کھڑے ہوجاتے تب مجھے اپنی محرومی کا شدید احساس ہوتا کہ میں کھڑی نہیں ہو سکتی. دل میں امید کا دیا جگمگاتا اللہ پاک سے گڑ گڑاکر دعا مانگتی کہ میرے پیروں میں طاقت آجائے میں بھی سب کی طرح کھڑی ہوکر سلام پڑھوں. لیکن  مشیت الہی کہ یہ آرزو حسرت ہی رہی. 

امی قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف رہتیں میں انکےپاس بیٹھی اوراق پلٹتے دیکھتی رہتی. 

ظہر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی امی افطاری اور پکوان کی تیاری شروع کر دیتیں.کبھی بھجئے کبھی گلگلے. تلی ہوئی اور ابلی ہوئی چنے کی دال. نمک پارے. دہی بڑے سب گھر میں ہی بنائے جاتے. ان دنوں بازاروں اور ہوٹلوں سے منگوانے کا چلن نہ تھا. حلیم بھی امی بہت لذیذ بناتی تھیں. ابا کی ہدایت تھی کہ ہر روز مسجد میں افطار بھیجا جائے. چنانچہ امی عصر کے بعد مسجد کی تھال تیار کر دیتیں. جس دن موز بھیجنا ہوتا تو میں پیش پیش. موز کے ٹکڑے کا ٹنے میں مجھے بڑالطف آتا. ملازمہ مسجد کا تھال لیکر جانے لگتیں تو میں مچل اٹھتی کہ میں بھی جاؤنگی. لہذا ملازمہ مجھے گود میں اٹھا لیتیں. افطار کا تھال کوئی اور تھام لیتا. مسجد شاہ خاموش کے صحن میں مولسری کا گھنا درخت تھا. جس کے سائے میں قطار در قطار روزے دار بیٹھے رہتے. ہم افطار لیکر جاتے تو نو عمر بچے ہماری طرف متوجہ ہوتے... مظفر بھائی کے گھر کی افطاری ہے... کچھ بزرگ میرے سر پہ ہاتھ پھیرتے اور دعا دیتے. مجھے بڑی خوشی ہوتی. گھر آکر سب تفصیل ابا امی کو سناتی کہ کس نے کیا کہا. 

پھر ہر روز باری باری کسی پڑوسی یا رشتے دار کے گھر افطاری کروشیا کے کشتی پوش سے ڈھانک کر بھیجی جاتی. پھر وہ بھی بھجواتے.  روح افزاء یا لیموں کا شربت بنا کے جگ میں رکھ دیا جاتا. کورے مٹی کے گھڑوں کا ٹھنڈا پانی.... آہ کیا نعمت تھی. ابا 10 دن نمک سے 10دن پانی سے اور 10 دن کھجور سے روزہ کھولتے. پابندی سے تراویح پڑھتے. تراویح سے آکر لیٹتے تو میں پیر دابنے لگتی. خوش ہوکر دعا ئیں دیتے. اس وقت حفاظ یوپی بہار سے بلوائے جاتےتھے اور انکے قیام و طعام کا مسجدوں میں اہتمام کیا جاتا. ہماری مسجد شاہ خاموش میں صبح دینی تعلیم کا بھی نظم ہواکرتا. جس کے نگران مولوی عبدالقدیر صاحب مرحوم ہوا کرتے. انہی مصروفیات کے دوران رمضان کا مہینہ گزرتا اور عید کی تیاری ہوتی ۔۔۔۔۔

.عید کی تیاریوں کے وہ دن بھی کیا خوب تھے..... مجھے تو ابادکان پر لیجا کرمن پسند کپڑے دلواتے. ساتھ ہی میچنگ ربن اور گلے کی مالا اور بالیاں . البتہ دادی ماں اور امی کے کپڑوں کا مسئلہ یوں حل ہوتا کہ ابا سایئکل پہ ساڑیوں کی ایک بڑی گٹھری اٹھا لیتے جن میں مختلف ساڑیاں فیشن کے مطابق ہوا کرتیں. امی ان میں سے اپنے اور دادی ماں کے لئے ساڑیاں پسند کر لیتں.. کم وبیش سبھی گھرانوں کا یہی دستور تھا. خواتین کا بازاروں میں گھومنا پھرنا بہت معیوب سمجھا جاتا. چاند رات کو چوڑیاں پہنانے والی چھوٹی بی آتیں اور رنگ برنگی کانچ کی چوڑیاں سب کے ہاتھوں میں کھنک اٹھتیں. 

عید کا چاند نظر آتا اور عید مبارک کی صدائیں گونجنے لگتیں. دودھ لانے کی گڑبڑ شروع ہو جاتی. امی شیر قورمہ سیٹ نکال کر دھلواتیں .رکشے میں سوار شخص لاؤڈسپیکر میں عید گاہ میں نماز عید کے وقت کا اعلان کرتا گزرتا تو عجیب سی خوشی ہوتی .

عید کی سہانی صبح ابا شیروانی پائجامہ زیب تن کئے سر پہ کشمیری ٹوپی پہنے عطر سرمہ لگائے شیر قورمہ سے روزہ کھول کر عید گاہ جانے تیار ہوتے .میں بھی بنی ٹھنی ساتھ ہو لیتی . عید گاہ میں صفیں آراستہ ہوتیں...میں ایک طرف بیٹھی چھوٹی چھوٹی چکنی کنکریاں جمع کرتی تاکہ پانچ پتھر کھیل سکوں .نماز کے بعد ابا انہیں اپنی دستی میں باندھ لیتے ...واہ رے بچپن .....

واپسی میں نانا حضرت کے حضور عید ملنے حاضری..  ...وہاں سب ما موؤں مامیوں اور بہنوں بھائیوں سے ملاقات ...عیدی کا حصول .....اس وقت دو روپئیے عیدی ملتی جو بڑی قیمتی ہوا کرتی ....بزرگوں کی بیش بہا دعاؤں کے ساتھ جو ملا کرتی تھی .....پھر درگاہ حضرت ملتانی پاشاہ قبلہ کے سالانہ عرس کی سیر .....ڈھیروں کھلونوں کی خریداری ....عیدی کی رقم جمع کرنے مٹی کی گللک ضرور لی جاتی ..سارا دن رشتے داروں کے گھر عید ملاقات .....شام ڈھلے گھر واپسی ...پھر نئے سرے سے تیار ہوکر امی کے ساتھ نا نا حضرت کے گھر پہونچنا ..وہاں رشتے داروں کی بھیڑ میں عید کی رونقیں .....! 

سارے منظر ذہن میں یوں نقش ہیں گویا کل ہی کی بات ہو .!

 **********



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.